Aaj Logo

شائع 09 اکتوبر 2024 03:08pm

پاکستان میں بہت سے کام بغیر قانون کے ہی ہوجاتے ہیں، چیف جسٹس کے ڈیمز فنڈ کیس میں ریمارکس

سپریم کورٹ نے دیا میر بھاشا اور مہمند ڈیمز فنڈز کیس میں وفاقی حکومت اور واپڈا سے معاونت طلب کرلی، دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں بہت سے کام بغیر قانون کے ہی ہوجاتے ہیں، میں نے آئین کی بالادستی کا حلف اٹھا یا تھا عدالتی فیصلوں کا نہیں، سیاسی باتوں کے بجائے آئین کے تحت معاونت کریں، سپریم کورٹ کے حکمنامے کی طرف نہیں جائیں گے، جب سپریم کورٹ میں عجیب و غریب چیزیں ہو رہی ہوتی ہیں اس وقت کوئی اعتراض نہیں کرتا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیمز کی فنڈز سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت سپریم کورٹ نے استفسار کیا کہ کیا ڈیمز فنڈز پرائیویٹ بینکس میں مارک اپ کے لیے رکھے جاسکتے ہیں؟ عدالت نے وفاقی حکومت اور واپڈا سے معاونت طلب کرلی۔

ایڈیشنل آڈیٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ ڈیمز فنڈز کی رقم اپنے پاس نہیں رکھ سکتی، سپریم کورٹ کے حکم نامے کے تحت وزیراعظم اور چیف جسٹس ڈیمز فنڈز اکاؤنٹ کھولا گیا، رجسٹرار سپریم کورٹ اکاؤنٹ کی دیکھ بھال کرتا تھا، تحقیقات سے علم ہوا ڈیمز فنڈز اور مارک اپ میں بے قائدگی نہیں ہوئی۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اکاؤنٹ کا عنوان نامناسب ہے، میری ہمیشہ پریکٹس رہی کہ آئین و قانون کے بجائے عدالتی فیصلوں کو فوقیت نہیں دینی چاہیئے۔

واپڈا کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے 2018 سے لے کر اب تک 19 عمل درآمد رپورٹس جمع کروائی ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہم نظرثانی نہیں سن رہے، صرف یہ دیکھ رہے ہیں سپریم کورٹ فنڈز رکھ سکتی ہے یا نہیں، جس پر سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ فنڈز کے اکاؤنٹ کا نام تبدیل ہونے پر کوئی اعتراض نہیں، نیوز پیپرز میں آج کل بہت کچھ چھپ رہا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ نہ آپ کو عدالت میں اخبار پڑھنے دیں گے نہ ہی یہاں اخبار پڑھیں گے، سیاسی باتوں کے بجائے آئین کے تحت معاونت کریں۔

سابق اٹارنی جنرل نے کہا کہ ڈیمز فنڈز کو حکومت کے استعمال کے بجائے ڈیمز کے لیے ہی استعمال ہونا چاہیئے، جب ڈیمز فنڈز کیس چل رہا تھا اس وقت آرٹیکل 184کی شق 3 کے اختیار کا پھیلاؤ پورے ملک تک تھا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ڈیمز فنڈز پبلک اکاؤنٹ میں گئے تو مارک اپ نہیں لیا جاسکتا، اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا فنڈز پبلک اکاؤنٹ سے مارک اپ کے لیے پرائیویٹ بینکوں میں رکھے جاسکتے ہیں؟ جس پر ایڈیشنل آڈیٹر جنرل نے بتایا کہ 37سالہ ملازمت میں ایسا کبھی نہیں دیکھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم ڈیمز بنانے سے متعلق سپریم کورٹ کے حکمنامے کی طرف نہیں جائیں گے۔

اس موقع پر متاثرین کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ تھرڈ پارٹی تنازعات بھی اس کیس سے جڑے ہوئے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے اس وقت نظرثانی دائر نہیں کی، جب سپریم کورٹ میں عجیب و غریب چیزیں ہو رہی ہوتی ہیں اس وقت کوئی اعتراض نہیں کرتا۔

دورانِ سماعت اسٹیٹ بینک کے لیگل ایڈوائزر نے عدالت کو بتایا کہ ڈیمز فنڈز میں اس وقت ٹوٹل 23ارب روپے سے زائد رقم موجود ہے۔ فنڈز میں آنے والی رقم 11 ارب جب کہ اس پر مارک اپ 12 ارب روپے سے زائد ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسٹیٹ حکام سے استفسار کیا کہ مارک اپ کون ادا کرتا ہے؟ جس پر ایڈیشنل آڈیٹر جنرل غفران میمن نے بتایا کہ مارک اپ ٹی بلز کے ذریعے حکومت ادا کرتی ہے، ڈیمز فنڈ کی مکمل تحقیقات کی ہیں، کوئی خردبرد نہیں ہوئی۔

چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا کہ حکومت اپنے آپ کو کیسے اور کیوں مارک اپ دے رہی ہے؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے جواب دیا کہ مارک اپ اس پیسے پر دیا جاتا ہے جو حکومت استعمال کرتی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ حکومت پر مارک اپ کا بوجھ ڈال کر خوش ہو رہے کہ 11 ارب روپے بڑھ کر 23 ارب ہوگئے، یہ تو آنکھوں میں دھول جھونکنے والی بات ہے، کیا سپریم کورٹ ڈیمز فنڈ میں موجود رقم رکھ سکتی ہے، جس پر ایڈیشنل آڈیٹر جنرل نے کہا کہ ڈیمز فنڈ کی رقم حکومت کے پبلک اکاؤنٹ کے ذریعے واپڈا کو جانی چاہیئے۔

جسٹس نعیم افغان نے استفسار کیا کہ حکومت کی مالی حالت ٹھیک نہیں، اگر رقم واپڈا کو دی ہی نہ تو کیا ہوگا؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کس دائرہ اختیار میں ڈیمز تعمیر کی پیشرفت رپورٹ مانگتی رہی؟ جس پر واپڈا کے وکیل سعد رسول نے جواب دیا کہ عدالت کا مقصد صرف ڈیمز کی تعمیر کے حکم پر عملدرآمد یقینی بنانا تھا۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ آئین میں عملدرآمد بینچ کی تشکیل کا کوئی ذکر ہے جس پر واپڈا وکیل نے کہا کہ آئین میں عملدرآمد بینچ کا ذکر نہیں لیکن کوئی پابندی بھی نہیں ہے۔ْ

چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں بہت سے کام بغیر آئین اور قانون کے ہی ہوجاتے ہیں، جس پر سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ عملدرآمد بینچ کا تصور کراچی بدامنی کیس سے شروع ہوا تھا، چیف جسٹس نے کہا میں نے حلف آئین کی بالادستی اور عملدرآمد کا اٹھایا تھا عدالتی فیصلوں کا نہیں۔

بعد ازاں، کیس کی سماعت جمعہ تک ملتوی کر دی گئی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے دیامر بھاشا اور مہمند ڈیمز کی تعمیر کے لیے فنڈز بنانے کے اپنے 2018 کے حکم نامے کے تحت کھولے گئے کھاتوں کی نگرانی جاری رکھنے کے حوالے سے قانونی ماہرین کی رائے طلب کرلی۔

Read Comments