جمیعت علماء اسلام (ف) کے سینیٹر اور لیگل ٹیم کے ممبر کامران مرتضیٰ نے کہا ہے کہ مجھے نہیں معلوم مولانا فضل الرحمان نے آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے یا نہیں، انہوں پوچھا کہ میڈیا میں کس دستاویز کے مسودے پر بات ہو رہی ہے۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں تو یہ خبر آپ کے پاس آئی ہوگی لیکن میرے پاس نہیں ہے۔
آئینی ترامیم: پاکستان بار کونسل نے اپنی تحریری تجاویز وفاقی حکومت کو بجھوا دیں
سینیٹر کامران مرتضیٰ میڈیا رپورٹس سے متعلق ایک سوال کا جواب دے رہے تھے، جن میں کہا گیا تھا کہ جے یو آئی کے سربراہ نے مجوزہ ترامیم سے مشروط طور پر اتفاق کیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق، مولانا فضل الرحمان نے معاملے کو مکمل آئینی عدالت میں بھیجنے کے بجائے پانچ یا چھ رکنی آئینی بنچ بنانے کی تجویز دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر ہمیں کسی مسودے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارے پاس آئینی ترمیم کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ پہلے ایک تجویز ہمارے ساتھ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے شیئر کی تھی۔ پھر ہم نے جوابی تجویز پیش کی جس میں 23 شقیں ہیں۔ یہ مسودہ مولانا صاحب کے پاس ہے، اب وہ چاہیں گے تو اسے پبلک کریں گے یا پارٹی کے ساتھ شیئر کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان جب کراچی سے آئیں گے، تب ہی ان کا اگلا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ میرے خیال میں یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا کہ مولانا صاحب نے اتفاق کیا ہے۔ میں سلمان اکرم راجہ سے رابطے میں ہوں۔
خیبرپختونخوا میں گورنر راج اور آرٹیکل 149 کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہوا تو ہم مخالفت کریں گے، باوجود اس کے کہ ہماری خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے ساتھ مخالفت ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ہمیں پی ٹی آئی کے ساتھ مینڈیٹ میں مسئلہ ہے، لیکن ہم اس طرح کے اقدامات کو قبول نہیں کریں گے۔ یہ غیر جمہوری ہو گا۔ ان کی حکومت جاری رہنے دیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم پی ٹی ایم پر پابندی کی بھی مخالفت کرتے ہیں، یہ بھلے ہمارے نظریات پر پورا نہیں اترتے اور پاکستان پر سوال غلط ہے، لیکن کسی بھی پارٹی پر پابندی غلط ہے۔ ہم پی ٹی ایم کے نظریے سے متفق نہیں ہیں۔