سپریم کورٹ میں مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف ایک اور درخواست دائر کر دی گئی۔
مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف نئی درخواست ایڈووکیٹ صائم چوہدری نے سپریم کورٹ میں دائر کی، جس میں وفاقی حکومت، اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ وفاقی حکومت آئین سے متصادم ترامیم نہیں کر سکتی، عدلیہ سے متعلق ترامیم عدلیہ کی آزادی سلب کرنے کے مترادف ہے، مجوزہ آئینی ترامیم بنیادی حقوق کے خلاف ہیں، حکومت آئینی ترامیم سے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے اختیارات ختم کرنا چاہتی ہے۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ مجوزہ آئینی ترامیم کو خلاف آئین اور کالعدم قرار دیا جائے، عدلیہ سے متعلقہ کسی قسم کی ترمیم اسکروٹنی کے بعد تمام اسٹیک ہولڈرز کو بھیجی جائے۔
مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف کیس کی جلد سماعت کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر
واضح رہے کہ مجوزہ آئینی ترمیمی بل میں مجموعی طور پر 54 تجاویز شامل ہیں تاہم بل میں چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں اضافے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں البتہ نئے چیف جسٹس کی تقرری کا طریقہ کار تبدیل کیا جائے گا۔
مجوزہ آئینی ترامیم کے مندرجہ جات کی تفصیلات سامنے آگئیں، مجوزہ آئینی ترامیم میں 54 تجاویز شامل ہیں، آئین کی63،51،175،187، اور دیگر میں ترامیم کی جائیں گی۔
ذرائع کے مطابق بلوچستان اسمبلی کی نمائندگی میں اضافےکی ترمیم بھی مجوزہ آئینی ترامیم میں شامل ہے، بلوچستان اسمبلی کی سیٹیں 65 سے بڑھاکر 81 کرنےکی تجویز شامل کی گئی ہے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ آئین کے آرٹیکل63 میں ترمیم کی جائیں گی، منحرف اراکین کے ووٹ سے متعلق آرٹیکل 63 میں ترمیم بھی شامل ہے، آئینی عدالت کے فیصلے پر اپیل آئینی عدالت میں سنی جائےگی۔
اس کے علاوہ آئین کے آرٹیکل 181 میں بھی ترمیم کیے جانےکا امکان ہے، چیف جسٹس کی مدت ملازمت نہیں بڑھائی جائےگی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو دوسرے صوبوں کی ہائیکورٹس میں بھیجا جاسکےگا۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ چیف جسٹس پاکستان کا تقرر سپریم کورٹ کے 5 سینئر ججز کے پینل سے ہوگا، حکومت سپریم کورٹ کے 5 سینئر ججز میں سے چیف جسٹس لگائےگی۔