سندھ کے شہر رانی پور میں بااثر پیر کی حویلی میں تشدد کے باعث جاں بحق کمسن ملازمہ کے کیس میں نیا موڑ آیا ہے۔ مقتولہ بچی کے والدین کو بااثر ملزمان کی جانب سے ہراساں کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ میں کمسن ملازمہ فاطمہ فرڑو سے جنسی زیادتی، تشدد اور قتل پر از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ بچی کے والدین اور ان کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔
بچی کے والدین نے قتل کیس کراچی منتقل کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ڈرا دھمکا کر صلح نامہ پر دستخط کروائے گئے تھے، چاہتے ہیں کیس منطقی انجام تک پہنچے اور ذمہ داروں کو سزا ملے۔
مقتولہ بچی کے اہلخانہ کے وکیل نے استدعا کی کہ اس کیس کو انسداد دہشت گردی عدالت میں چلایا جائے۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر فریقین سے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 14 اکتوبر تک ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ اگست 2023 میں پیر کی حویلی میں کمسن فاطمہ فرڑو کے تڑپنے کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی، بچی کی ہلاکت کے بعد ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تشدد اور جنسی زیادتی بھی ثابت ہو چکی، مقدمے کے اندراج کے بعد پیر اسد اللہ شاہ، پیر فیاض شاہ، حنا شاہ اور امتیاز نامی ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔
بعد ازاں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں بچی کی والدہ کی جانب سے جمع کرائےگئے حلف نامے پیش کیے گئے تھے۔
حلف نامے میں بچی کی والدہ کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کی خبروں کے مطابق ان سے دستخط کرا کے مقدمہ درج کیا گیا، ان کی بچی کی موت طبعی ہوئی تھی، گرفتار افراد معصوم ہیں، اگر عدالت پیر اسد اللہ شاہ، پیر فیاض شاہ، حنا شاہ اور امتیاز کو ضمانت دے تو اعتراض نہیں۔
اب فاطمہ کی ماں کی جانب سے ملزمان کو بیان حلفی میں بے گناہ قرار دیے جانے کے معاملے میں نیا موڑ آگیا ہے۔