Aaj Logo

شائع 07 اکتوبر 2024 11:09pm

بارش کا پانی محفوظ کرنے کا مؤثر طریقہ ’پانی چوس کنواں‘ کیا ہے؟

پاکستان میں روزمرہ استعمال کیلئے صاف پانی کی شدید قلت ہے اور اکثر پانی چوری کرکے ہائیڈرینٹس کے زریعے ٹینکر مافیا کو دیا جاتا ہے، ایسے میں ملک کی ستر فیصد گھریلو اور پچاس فیصد سے زائد زرعی ضروریات پوری کرنے کیلئے زیر زمین پانی پر انحسار کیا جارہا ہے اور اس مقصد کیلئے روزانہ کروڑوں لیٹر پانی زمین سے نکالا جا رہا ہے۔

پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جنہیں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر زیر زمین پانی کے ذخائر اسی رفتار اور مقدار سے استعمال ہوتے رہے تو ملک میں پانی کا بحران کہیں زیادہ شدت اختیار کر جائے گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورت حال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ زیر زمین پانی کے ذخائر کو تواتر سے ریچارج کیا جائے۔

زیر زمین پانی کو ریچارج کرنے کا مطلب ہے کہ اگر زمین سے پانی نکالا جا رہا ہے تو واپس پانی اس خالی جگہ میں پہنچایا بھی جائے، یہ عمل برسات میں قدرتی طور پر ہوتا ہے جب کچی زمین پانی جذب کرتی ہے، لیکن زمین کے اندر پانی پہنچانے کے تیز طریقے کو ”بور ویل ریچارج“ کہاجاتا ہے۔

اور زیر زمین پانی کے ذخائر کو ریچارج کرنے کا ایک مؤثر طریقہ ”پانی چوس کنواں“ ہے۔

سولر پینل سے چلنے والے ٹیوب ویل خطرہ بن گئے

دراصل ”ریچارج ویل“ کو اردو میں ”پانی چوس کنواں“ کہا جاتا ہے۔ یہ ترجمہ ظفر اقبال وٹو نے کیا ہے جو آبی وسائل کے ماہر اور معروف محقق ہیں۔

انہوں نے جرمن خبررساں ادارے ”ڈوئچے ویلے“ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پانی چوس کنواں ایسا نظام ہے جو بارش کے پانی کو زیر زمین پانی سے ملانے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ زمین کے نیچے پانی کے ذخائر موجود ہیں جنہیں دوبارہ بھرنے کے لیے بارش کا پانی ان تک پہچانا ضروری ہے۔ زمین کی اوپر والی سخت تہہ اور سیمنٹ یا تارکول کے فرش سے تو پانی نیچے جا نہیں سکتا۔ اس لیے پانی کی گزرگاہ یا قدرتی بہاؤ کے راستے میں ایسے کنویں کھود دیے جاتے ہیں جن سے پانی زمین کے نیچے پہنچ سکے۔ انہیں پانی چوس کنویں کہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسے کنویں میں ریت یا کنکروں کی ایسی پرتیں ہوتی ہیں جو پانی کا راستہ نہیں روکتیں۔ بارش کا پانی چھوٹی چھوٹی آبی گذرگاہوں کی مدد سے ایک طرف موڑا جاتا ہے جہاں پہلے سے کنواں موجود ہے۔ بارش کا پانی پہلے ریت، بجری اور دیگر فلٹرنگ مواد کی مدد سے صاف ہوتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ زمین میں چلا جاتا ہے۔

پانی چوس کنویں کی دوسری بڑی اہمیت بارش کے محفوظ پانی کو ضائع اور آلودہ ہونے سے بچانا ہے۔

اگر بارش کا پانی زمین میں نہیں جاتا تو وہ سیلابی پانی بنتا ہے یا سیوریج میں شامل ہو کر زہر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

سکردو کی خوبصورت لیکن پراسرار ’اندھی جھیل‘، جس کے پار کوئی نہیں جاتا

زمین کا اپنا سسٹم ہے، وہ بارش کے پانی کو صاف کر کے ہمیں دیتی ہے لیکن اگر سیوریج کا پانی اس میں جائے تو فطری نظام اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ اس لیے ہمیں بارش کا پانی آلودہ کیے بغیر زمین کو لوٹانا ہوتا ہے جس کے لیے پانی چوس کنویں بہترین ذریعہ ہیں۔

Read Comments