حال ہی میں ایک چونکا دینے والے رجحان نے سوشل میڈیا صارفین کے غم و غصے کو جنم دیا ہے۔
ایک ایسا ملک جہاں کے گاؤں میں ایک شرمناک عمل کیا جاتا ہے، حیران کن طور پر اُسے ایک کاروبار کے طور پر لیا جارہا ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق انڈونیشیا کے دیہات میں غریب گھرانوں کی خواتین پیسے کے عوض مالدار غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ ’عارضی شادی‘ کر رہی ہیں، جن میں زیادہ تر مردوں کا تعلق مشرق وسطیٰ سے بتایا گیا ہے۔ یہ کام مغربی انڈونیشیا کے ایک مشہور سیاحتی مقام پنکاک (Puncak) میں ہو رہا ہے۔ وہاں آنے والے سیاح گاؤں کی خواتین سے عارضی طور پر شادی کر کے انہیں رقم دیتے ہیں، بعدازاں کچھ روز بعد شادی کا اختتام طلاق پر ہوجاتا ہے۔
عارضی شادیاں کروانے کا پورا انٹظام باقاعدہ ایجنسیز کے ہاتھوں میں ہے جو انڈونیشیا کے کوٹہ بنگا ریزورٹ میں یہ کام انجام دیتی ہیں۔
لاس اینجلس ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق (pleasure marriages) ایک منافع بخش مگر گھناؤنا کاروبار بن چکا ہے، رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس کام سے سیاحت اور مقامی معیشت کو بھی فروغ حاصل ہو رہا ہے۔
انڈونیشیا کی ایک نوجوان خاتون کاہیا نے ایک عارضی بیوی کے طور پر اپنا دردناک تجربہ شیئر کیا۔ خاتون نے غیر ملکی میڈیا کو بتایا کہ اس نے مشرق وسطیٰ کے سیاحوں سے 15 سے زائد شادیاں کی ہیں۔ اس کے پہلے عارضی شوہر (ایک 50 سالہ سعودی) نے اسے 850 ڈالر (2 لاکھ 37 ہزار پاکستانی روپے) ادا کیے تھے۔ لیکن جب ایجسنی کے اہلکاروں نے خاتون سے اپنا حصہ لیا تو اسے صرف آدھا ہی ملا۔ شادی کے پانچ دن بعد وہ شخص گھر واپس چلا گیا اور ان کے درمیان’’طلاق‘’ ہوگئی۔
کاہیا نے انکشاف کیا کہ وہ فی شادی سے 300 ڈالر سے 500 ڈالر کے درمیان کماتی ہے، جس سے بمشکل وہ اپنے گھر کا کرایہ ادا کرتی ہیں اور اپنے بیمار دادا دادی کی کفالت کرتی ہیں۔ کاہیا نے بتایا کہ ان کے اس کام کی وجہ سے ان کے شوہر اور بیٹی دونوں ان سے علیحدہ ہو چکے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ان عارضی شادیوں کو انڈونیشیا کے قانون نے بھی تسلیم نہیں کیا، کیونکہ یہ شادی کے بنیادی مقصد کو شدید نقصان پہنچانے کا سبب ہے۔