سوشل میڈیا پر بعض صارفین کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی نے ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی نئی انڈرگریجویٹ پالیسی کے تحت جامعات اور کالجوں سے اردو کو بطور لازمی مضمون نصاب سے ختم کر دیا ہے۔
مذکورہ پوسٹ وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ انہوں نے قومی زبان کو سائیڈ لائن کرنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
گزشتہ ماہ 28 ستمبر کو ایک فیس بک صارف نے تقریباً 4 منٹ کی ایک ویڈیو شیئر کی جس میں پوسٹ دعویٰ کیا گیا کہ وفاقی وزیر برائے تعلیم خالد مقبول صدیقی نے انڈرگریجویٹ نصاب سے اردو کو نکال دیا ہے۔
صارف نے ویڈیو کے کیپشن میں لکھا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی نئی انڈرگریجویٹ پالیسی نے اردو کو نصاب سے نکال دیا ہے۔ مذکورہ پوسٹ کو 5 ہزار سے زائد بار دیکھا اور 20 سے زیادہ بار شیئر کیا جا چکا ہے۔
اس حوالے سے چند پوسٹ مختلف سوشل میڈیا پلٹ فارمز پر شئیر کی گئیں۔ ایک اور پوسٹ میں بھی ہائر ایجوکیشن کمیشن پر اردو کو اعلیٰ تعلیم سے خارج کرنے کا الزام بھی لگایا گیا۔
اسی طرح کے دعوے یہاں یہاں اور یہاں بھی شیئر کیے گئے۔
خبر کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ شئیر کردہ دعوے گمراہ کن ہیں اور انہیں سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن اور 3 یونیورسٹیوں کے منتظمین کے مطابق پاکستان میں انڈرگریجویٹ طلبہ کے لیے اردو کبھی بھی لازمی مضمون نہیں تھا۔
ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد کے مطابق یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔ اس حوالے سے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے حالیہ پریس ریلیز میں بھی اس خبر کو گمراہ کن قرار دیا۔ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ یہ بات واضح ہے کہ انڈرگریجویٹ کی سطح پر اردو کبھی بھی لازمی مضمون نہیں رہا ہے تاہم، اردو کو بطور لازمی مضمون انٹرمیڈیٹ ایف اے، ایف ایس سی کے مساوی سطح تک پڑھایا جاتا ہے، جو آج بھی جاری ہے۔ اس کا نصاب HEC کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔