وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کا قافلہ ہفتہ کی دوپہر حسن ابدال کٹی پہاڑی کے قریب شیلنگ کے دوران ناکہ توڑ کر اسلام آباد کی طرف بڑھنے میں کامیاب ہوگیا۔ کچھ دیر بعد قافلہ راولپنڈی اسلام آباد کے باہر 26 نمبر چنگی پر پہنچا جہاں رات سے پی ٹی آئی کارکنوں اور پولیس میں جھڑپیں چل رہی تھیں۔ اس کے بعد علی امین گنڈاپور چائنہ چوک پر دیکھے گئے لیکن پھر وہ خیبرپختونخوا ہاؤس پہنچے جہاں سے انہیں حراست میں لئے جانے کا دعویٰ کیا گیا۔ سرکاری ذرائع نے ان کی گرفتاری کی تردید کی ہے۔ چئیرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان اور اہم شخصیات بھی خیبرپختونخوا ہاؤس پہنچ گئیں۔ علی امین گنڈاپور آخری اطلاعات تک کے پی ہاؤس میں موجود تھے۔ذرائع کے مطابق علی امین گنڈا پور کو واپس پشاور بھجوائے جانے کا امکان ہے۔
کے پی ہاؤس جانے اور گرفتاری کی خبروں سے قبل علی امین گنڈاپور کی گفتگو سامنے آئی جس میں انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرالیا ہے، ہم نے ثابت کیا ہے کہ پی ٹی آئی پرامن جماعت ہے، ہمارا اختیار محدود ہے، اب جو عمران خان کی طرف سے حکم آئے گا اس کے مطابق آگے چلیں گے اگر وہ کہے گا کہ دھرنا دینا ہے تو دھرنا دیں گے، بانی پی ٹی آئی سے بات کر کے آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے۔
اسلام آباد میں تعینات فوج کو صورتحال کشیدہ ہونے پر تمام اختیارات استعمال کرنے کی اجازت
اطلاعات کے مطابق علی امین گنڈاپور اپنے قافلے کے بنا کے پی ہاؤس پہنچے جہاں ان کی حکومتی شخصیات سے ملاقات کا امکان تھا۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کو ملاقات کا پیغام دیا گیا تھا، تاہم، اس کے کچھ دیر بعد ہی علی امین گنڈاپور کے شراب برآمدگی کیس میں ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کردئیے گئے اور پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری نے قیدی وین سمیت کے پی ہاؤس پر دھاوا بول دیا۔
عمر ایوب اور علی امین گنڈاپور کے بھائی فیصل امین گنڈاپور نے گرفتاری کا دعویٰ کرتے ہوئے کہاکہ پولیس نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی گرفتاری اسلحہ برآمدگی کیس میں ڈالی ہے۔ تاہم سرکاری ذرائع نے علی امین گنڈاپور کی گرفتاری کی تردید کی۔
سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈا پور کی گرفتاری اور حراست میں لئے جانے کی افواہیں بے بنیاد ہیں، علی امین گنڈاپور کو نا ہی گرفتار کیا گیا اور نہ ہی حراست میں لیا گیا ہے، اس حوالے سے پھیلائی جانے والی خبریں من گھڑت اور بے بنیاد ہیں۔
ذرائع کے مطابق سیکورٹی فورسز کی طرف سے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، اس سلسلے میں گولی چلانے کی خبریں بالکل بے بنیاد اور گمراہ کن ہیں، مصدقہ اطلاعات آنے تک قیاس آرائیوں اور افواہوں سے گریز کیا جائے۔
تاہم، ذرائع کا کہنا تھا کہ علی امین گنڈا پور کو ریاست کے خلاف حملہ آور ہونے پر قانونی کارروائی ہو سکتی ہے، علی امین گنڈا پور پر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کا الزام ہے، ان پر سرکاری وسائل کا غلط استعمال کرنے کا الزام بھی ہے۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا کے وزیر اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا تھا کہ علی امین گنڈاپور کے فون نمبرز بند جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سردار علی امین گنڈاپور کو باضابطہ طور پر گرفتار نہیں کیا گیا ہے، رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری کے پی ہاؤس میں موجود ہے۔
بیرسٹر سیف نے کہا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا 25 اکتوبر تک ضمانت پر ہیں، ان کی گرفتاری توہین عدالت ہوگی، وزیر اعلیٰ کو اگر گرفتار کیا گیا تو خیبر پختونخوا کی عوام کے مینڈیٹ کی توہین ہوگی، جعلی حکومت کو اس قسم کے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کا جواب دینا ہوگا۔
لاہور سمیت مختلف اضلاع میں بھی فوج طلب
تحریک انصاف کے ترجمان شیخ وقاص اکرم نے کہاکہ گنڈاپور بانی پی ٹی آئی سے بڑا لیڈر نہیں ہے، اسے اگر گرفتار کر بھی لیا گیا تو احتجاج کو اعظم سواتی لیڈ کریں گے، احتجاج کسی صورت ملتوی نہیں کیا جائے گا۔
بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ گنڈاپور پشاور روانہ ہوتے تو ضرور رابطہ کرتے، علی امین گنڈاپور کا کسی سے بھی رابطہ نہیں ہورہا، ہمیں کوئی علم نہیں کہ علی امین گنڈاپور کہاں ہیں، گنڈاپور گرفتار ہوجاتے ہیں تو پی ٹی آئی کا ہر کارکن لیڈر بن جائے گا۔
بیرسٹر سیف نے بعد میں ایک اور بیان میں کہا کہ علی امین گنڈا پور نے ڈی چوک پر احتجاج ریکارڈ کرا دیا اور پھر وہ کے پی ہاؤس گئے تاکہ کارکن کچھ کھا پی لیں لیکن اس دوران کے پی ہاؤس کا محاصرہ کر لیا گیا۔
پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر نے کہا کہ ’علی امین بظاہر حبس بے جا میں ہیں، گرفتاریوں کی صورت میں متبادل قیادت موجود ہے حو احتجاج کی قیادت کرے گی۔‘
ذرائع کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور خیبرپختونخوا ہاؤس کے سی ایم کمپاؤنڈ میں موجود ہیں، بیرسٹر گوہر اور دو اہم شخصیت بھی ان کے ساتھ موجود تھیں۔
ذرائع کے مطابق بیرسٹر گوہر اور علی امین گنڈاپور کے درمیان احتجاج کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوا اور اب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو واپس پشاور بھجوائے جانے کا امکان ہے۔
آئی جی اسلام آباد اور ایس ایس پی آپریشنز بھی خیبرپختونخوا ہاؤس میں موجود تھے۔
شام کو پی ٹی آئی کارکنان کی بڑی تعداد ڈی چوک پہنچنے میں کامیاب ہوگئی۔ اسلام آباد میں تیز بارش سے پولیس کی شیلنگ بھی ناکام ہوگئی۔ مظاہرین نعرے بازی کرتے ہوئے تیز بارش میں ڈی چوک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ پولیس، ایلیٹ فورس، ایف سی اور رینجرز ڈی چوک خالی چھوڑ کر بھاگ گئی،
قبل ازیں، پولیس کی جانب سے چائنہ چوک پر شیلنگ کی گئی، مظاہرین نے چائنہ چوک پر رکھے کنٹینرز کو عبور کر لیا اور سڑک پر آگ بھی لگا دی، مظاہرین تمام تر روکاوٹیں عبور کرتے ہوئے ڈی چوک کے نزدیک پہنچ گئے، تاہم، اسلام آباد پولیس نے کارکنان کو ڈی چوک سے پیچھے دھکیل دیا اور پی ٹی آئی کارکنان ڈی چوک سے چائنہ چوک کی طرف چلے گئے۔
پی ٹی آئی کارکنوں نے ڈی چوک کے قریب جناح ایونیو پر درختوں کو بھی آگ لگا دی۔
قبل ازیں گنڈاپور کے قافلے نے حسن ابدال کٹی پہاڑی پر رات بھر قافلے نے دھرنا دیا اور اس دوران پولیس کی طرف سے شیلنگ کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
گنڈا پور نے صبح دوبارہ آگے بڑھنے کا اعلان کیا تو کارکنوں نے ناکے پردھاوا بول دیا اس دوران پولیس نے شارٹ اور لانگ رینج کے ہزاروں شیل برسا دیئے۔ شیلنگ کے دوران قافلے کے ساتھ آئی ہیوی مشینری فرنٹ پرآگئی۔ گنڈاپور نے پیدل چل کر ناکہ کراس کیا تو مظاہرین بھی ساتھ چل پڑے۔ علاوہ ازیں انتظامیہ کی جانب سے کھودی گی خندقیں بند کرکے کنٹینرزالٹا دئیے گئے۔ گنڈا پور کی قیادت میں قافلہ باہتر انٹر چینج کی جانب رونگی کو تیارہے جس میں سیکڑوں گاڑیاں سمیت کنٹینرز ہٹانے کے لیے کرینز بھی موجود ہیں۔
واضح رہے کہ علی امین گنڈا پور کا قافلہ احتجاج کے پہلے روز حسن ابدال سے آگے نہ بڑھ سکے تھے۔ انہوں نے کٹی پہاڑی کے علاقے میں رات گزاری تھی۔
دوسری جانب وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی الصبح ڈی چوک پہنچ گئے اور پولیس اور ایف سی جوانوں کاحوصلہ بڑھایا۔ انہوں نے ڈیوٹی پرموجوداہلکاروں سےملاقات کی اوران کےبلندحوصلے کو سراہا۔
انہوں نے کہا کہ پولیس اور ایف سی جوانوں کا مورال بہت بلند ہے، پولیس اورایف سی اہلکارہمہ وقت الرٹ ہیں، قانون کے رکھوالوں نے قانون کی عملداری یقینی بنائی ہے، آپ فرض شناسی سے قومی فریضہ نبھا رہے ہیں۔
بھارتی وزیر خارجہ سے متعلق بیرسٹر سیف کا بیان سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا، بیرسٹر گوہر
گزشتہ روزفیض آباد کے قریب پی ٹی آئی کارکنان کے احتجاج پر تھانہ صادق آباد میں واقعہ کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔ ذرائع کے مطابق مقدمے میں پی ٹی آئی کے17کارکنان سمیت 250افراد کونامزد کیا گیا۔
مقدمےمیں اےٹی سی، کارسرکارمیں مداخلت کی دفعات لگائی گئیں
جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب مظاہرین نے 26 نمبرچونگی پر کرین اور ایک موٹرسائیکل کو آگ لگا دی۔ پولیس نے مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے شیلنگ کی۔ اطلاعات کے مطابق بلیو ایریا میں کارکنان ٹولیوں کی شکل میں موجود تھے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیر برائے بیرسٹر محمد علی سیف نے بتایا کہ گنڈا پورنے رات برہان انٹرچینج کے قریب آسمان تلے گزاری اور رات بھرعلی امین اورشرکا کنٹینرہٹاتے رہے۔
انہوں نے بتایا کہ علی امین گنڈا پورکی قیادت میں قافلہ اسلا آبادروانہ ہوگیا اور اگلا پڑاؤ ڈی چوک پر ہوگا، موباٸل نیٹ ورک کی معطلی سے رابطوں میں مشکلات ہیں اور ہم رابطوں کیلٸےمتبادل ذراٸع استعمال کررہےہیں۔
بیرسٹر علی شیف نے کہا کہ ہمارا قافلہ اپنی منزل تک پہنچے گا، ہم نے واپسی کا کوئی فیصلہ نہیں کیا، ہم اپنے اٸینی اور قانونی حق کے لٸے نکلے ہیں۔
اس سے قبل وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی قیادت میں جمعہ کو پی ٹی آئی کارکنوں کا قافلہ چھچھ اور پھر برہان میں کنٹینرز ہٹا کر جمعہ کی سہ پہر براہمہ پہنچ تھا۔ پولیس کی شیلنگ کے باعث قافلہ براہمہ پر ہی پھنس گیاتھا۔ تاہم کچھ دیر بعد قافلہ آگے بڑھنے میں کامیاب رہا۔
شام کو پونے 8 بجے حسن ابدال کٹی پہاڑی پر علی امین گنڈا پور کے قافلے پر شدید شیلنگ شروع ہوگئی۔ پولیس اور مظاہرین کےدرمیان تصادم کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں سمیت متعدد افراد زخمی ہوگئے، جبکہ شیلنگ کےدوران علاقہ اندھیرے میں ڈوب گیا تھا۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پورکا قافلہ جب براہمہ پہنچا تو مظاہرین نے شیلنگ کے اثر کو کم کرنے کے لیے گرین ایریا کو آگ لگا دی تھی۔ اس سے پہلے چھچھ کے مقام پر بند موٹر وے پر پڑے کنٹینرز کرینوں کے ذریعے ہٹا دیے گئے تھے۔
جمعہ کو اسلام آباد میں ڈی چوک کے قریب جھڑپیں ہوئیں۔ اسی ماحول سے ہوتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما شوکت بسرا وعامرمغل ڈی چوک پہنچے تھے۔
سرشام پولیس نے کم از کم 30 مظاہرین کو گرفتار کرلیا تھا۔ اسلام آباد اور راولپنڈی میں موبائل اور انٹرنیٹ سروسز معطل ہیں۔
عمران خان کی دونوں بہنوں کو بھی ڈی چوک کے قریب سے گرفتار کیا گیا۔
ڈی چوک پر احتجاج کے پیش نظر اسلام آباد مکمل طور پر سیل کردیا گیا تھا، شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر سخت ترین ناکہ بندی تاحال برقرار ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کے پیش نظر راولپنڈی کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا تھا۔
کارکنان کی فیض آباد سے آگے بڑھنے اوررکاوٹیں ہٹانے کی کوشش پر میٹرو اسٹیشن کے قریب کارکنان کا پولیس پرپتھراؤ جبکہ پولیس کی جانب سےکارکنان کومنتشر کرنے کیلئےشیلنگ کاسلسلہ جاری رہا۔
اس قبل وزیر داخلہ نے تحریک انصاف کو پھر خبردار کیا ہے تحریک انصاف جو کر رہی ہے اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے راولپنڈی اسلام آباد کے مختلف علاقوں کا فضائی معائنہ کیا۔
وزیرداخلہ نےسیکیورٹی انتظامات اورمجموعی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے سیکیورٹی انتظامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔
وزیر داخلہ نے شر پسند عناصر سے سختی سے نمٹنے کی ہدایات بھی کی، محسن نقوی نے کہا کہ کسی کوامن وامان کی صورتحال خراب کرنےکی اجازت نہیں دیں گے، انتظامیہ اورپولیس ہرممکنہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیار ہے۔
پی ٹی آئی کے احتجاج کے باعث شہراقتدار میں شاہراہوں کی بندش کے ماضی کے سب ریکارڈ ٹوٹ گئے، اسلام آباد کو مکمل سیل کردیا گیا۔
راولپنڈی سے آنے والوں کے لیے تو کنٹینر لگائے گئے اسلام آباد کے باسیوں کی نقل حرکت بھی محدود کردی گئی، ریڈ زون سیل، تعلیمی ادارے اور مرکزی شاہراہیں بند، موبائل فون سروس اور میٹرو سروس بھی معطل کردی گئی۔
مختلف شہروں سے اسلام آباد جانے والی سڑکیں بند، لاہور سے نکلنا مشکل