پی ٹی آئے کے کل ہونے والے احتجاج کی کال پر وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ اسلام آبادمیں دفعہ 144 نافذ ہے، کل کچھ ہوا تو پی ٹی آئی نرمی کی توقع نہ رکھے۔ پیراملٹری فورسز ، رینجرز اور آرمی کو طلب کرلیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے احتجاج کے حوالے سے وزارت داخلہ میں دوسرا بڑا اجلاس ہوا، جس میںوزیرداخلہ، چیف کمشنر، ڈی سی اور آئی جی اسلام آباد شریک ہوئے۔ اجلاس میں کل ہونے والے احتجاج سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا۔
اجلاس کے بعد اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے محسن نقوی نے کہا کہ ملائیشیا کے وزیراعظم پاکستان کے دورے پر ہیں اور اسلام آباد میں اہم نوعیت کی عالمی تقاریب جاری ہیں، غیرملکی سربراہ کی موجودگی میں پی ٹی آئی کا احتجاج مناسب نہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہمارے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، بطورپاکستانی آپ سیاست کریں لیکن 17 تاریخ تک خیال کریں۔
محسن نقوی کا کہنا تھا کہ ملائیشیا کے وزیراعظم آچکے ہیں،اس کے بعد سعودی وفد آرہا ہے، اس کے بعد وزیراعظم چین آرہے ہیں، ایسے میں کل کے احتجاج کی کال دے دی گئی ہے، پی ٹی آئی پاکستان کی جماعت ہے باہر کی جماعت نہیں،کوئی ہیڈ آف اسٹیٹ یہاں ہو اور آپ اسلام آباد پر دھاوا بولنے کا بولیں، یہ مناسب نہیں، ہم نے ہر طریقے سے اپنے تمام تر انتظامات کرنے ہیں، نرمی یا کوئی اور دوسری سوچ کسی صورت نہیں ہوگی۔
انھوں نے کہا کہ اسلام آباد انتظامیہ نے جلسے کی جگہ مختص کردی ہے لیکن تحریک انصاف نےکل احتجاج کی کال دی ہوئی ہے، کل کسی نےدھاوابولا تو کوئی شکوہ نہ کرے کیونکہ سیکیورٹی انتظامات میں کوئی کوتاہی نہیں برتی جائے گی، اسلام آبادمیں دفعہ 144نافذ ہے۔
انھوں نے بتایا کہ سعودی اور چینی وفود بھی پاکستان پہنچ رہے ہیں جس کے لئے ہم نے سیکیورٹی کے پیشگی انتظامات کرلئے ہیں، مولانافضل الرحمان نےبھی احتجاج نہ کرنےکی اپیل کی ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ملک کی بدنامی ہو اور پریشانی کا باعث بنے، احتجاج کرنا آپ کاحق ہے لیکن ان 10 سے 12 دنوں میں نہ کریں۔ عالمی رہنما موجود ہیں، کوئی احتجاج برداشت نہیں کریں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جلسےکی اجازت کے لیے ایک نئے قانون کے تحت جگہ بھی متعین ہے، چھوٹا سا بھی واقعہ ہوگیا تو اس کا خمیازہ پوری زندگی بھگتنا ہوگا، اگر کوئی کرے گا تو کسی قسم کی نرمی کی توقع نہ کرے، ہمارے لیے یہ بہت ہی باریک لائن ہے، شہریوں سے ایڈوانس میں معذرت خواہ ہوں ہماری مجبوری ہے، سختی سے مراد سختی ہے کسی کو اچھا لگے یا برا، ہم کسی صورت افورڈ نہیں کرسکتے کہ کوئی معاملہ خراب ہو۔