اسرائیل کا لبنان پر حملہ دہشت گرد گروپ کے خلاف کارروائی تھی، البتہ ایرانی حملہ اسٹیٹ پر اسٹیٹ کا حملہ ہے، امریکی نیوی نے حملے روکنے میں کردار ادا کیا، ایران کو حملے کے نتائج بھگتنا ہوں گے، وغیرہ وغیرہ، یہ جملے امریکی صدر سمیت مختلف عہدے داروں کی طرف سے اسرائیلی حمایت میں دیے گئے بیانات میں سے اخذ کیے گئے ہیں۔
برطانوی وزیر دفاع جان ہیلے نے بھی کہا ہے کہ ان کی افواج نے اسرائیل کے دفاع میں اپنا کردار ادا کیا، اسرائیلی جنگی کابینہ کا اجلاس بنکر میں ہوا جس کے بعد نیتن یاہو نے بیان دیا کہ ایران نے بڑی غلطی کرڈالی، سزا کے لیے تیار رہے، اسرائیل کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا کہ ایران اب اپنے ایٹمی پروگرام کو ختم ہی سمجھے، اسرائیل نے پیجر اور واکی ٹاکی حملے کرکے ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی برتری ثابت کی، اسی طرح حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی تلاش میں تکنیکی مہارت کو ثابت کردیا، انھیں ڈھونڈ نکالا اور ایسے وقت میں نشانہ بنایا جب ان کے ساتھ حزب اللہ کی سینئر قیادت موجود تھی، اسرائیلی فوجیں لبنان میں داخل ہوچکی ہیں، اور ان کی دراندازی کو محدود اور معین ہدف کے لیے قرار دیا جارہا ہے۔ کیا واقعی ایران نے غلطی کرڈالی ہے؟
گریٹر اسرائیل کا منصوبہ بھی سامنے آیا ہے، جس میں تقریباً آدھا سعودی عرب، نصف عراق، ستر فیصد تک شام، ترکی کا کچھ حصہ اور قاہرہ سمیت مصر کا تھوڑا بہت حصہ شامل ہے، جبکہ کویت، اردن، لبنان اور غزہ مکمل ہڑپ کیا جائے گا، سعودی عرب والے حصے میں مکہ، مدینہ بھی شامل ہوگا، بظاہر یہ ایک ناقابل عمل منصوبہ لگتا ہے، یہ سازش کامیاب ہوگی یا نہیں، یہ تو بعد کی بات ہے.
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایران نے حملہ کرکے غلطی کی اور کیا اس نے اسرائیل اور امریکا سمیت مغربی طاقتوں کو حملے کا موقع تو فراہم نہیں کردیا جس موقع کا مغرب کو بہت بے صبری سے انتظار تھا، ایران کے قریبی ملکوں میں امریکی فوجی اور اڈے موجود ہیں، اسی طرح امریکی بحری بیڑے اور جنگی جہاز بھی تیار کھڑے ہیں۔
ایران کا فاتح 2 ہائپر سونک سے اسرائیلی دفاعی نظام یرو 2 اور 3 تباہ کرنے کا دعویٰ
برطانیہ، یورپی یونین اور جرمنی سمیت متعدد مغربی ملکوں نے ایرانی حملے کی مذمت کی ہے، اردن کے شاہ عبداللہ نے صبر و تحمل کا درس دیا، تاہم ابھی دیگر مسلم ملک دانتوں تلے انگلیاں دابے بیٹھے ہیں کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں، آگے کنواں اور پیچھے کھائی۔ البتہ پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف کا بیان گزشتہ رات ہی سامنے آیا، جس میں انھوں نے کہا کہ امریکا اور مغرب کی شہ پر اسرائیل تین ملکوں فلسطین، لبنان اور ایران کو نشانہ بنا رہا ہے، عجب نہیں کہ پاکستان سے بھی پنگا لے لیتا، یہ تو ملک کا ایٹمی طاقت ہونا اور فوج کا مسلسل حالت جنگ میں رہنے کا تجربہ ہے، جس نے اسرائیل کو روک رکھا ہے، ہمارا ایٹمی نظام بھی دنیا کی نظروں میں کھٹکتا ہے، اور جس طرح کے اعتراضات سامنے آتے ہیں، ان کا مقصد پاکستان کو دفاعی صلاحیت سے محروم کرنا ہے۔
سن 1967میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا جب اسرائیل نے تین عرب ملکوں مصر، شام اور اردن کو نشانہ بنایا، یہ جنگ پانچ سے دس جولائی تک یعنی صرف چھہ دن جاری رہی اور اس جنگ میں عربوں کی شکست کے زخم آج تک نہیں بھرے، عرب ملکوں نے اس جنگ کے بعد تلواریں تیز نہیں کیں البتہ امریکا اور اسرائیل سے تعلقات کی راہ ہموار کرنا شروع کردی، مصر سمیت کئی خلیجی ملکوں کے اسرائیل سے تعلقات ڈھکے چھپے نہیں رہے، اب تو باقاعدہ اسرائیل کو تسلیم کرنے، اس کے سفارتخانے کھولنے اور تجارتی روابط کا قیام ہورہا ہے، سعودی عرب اور اسرائیل بھی امریکی آشیرباد سے خاصے قریب آچکے ہیں، تاہم غزہ پر اسرائیلی حملے نے تیزی سے بڑھتے ان تعلقات میں کچھ رخنہ ڈال دیا ہے، سعودی عرب نے واضح کردیا ہے کہ اسرائیل کو خطے میں اپنے رویے پر نظرثانی کرنا ہوگی۔
دوسری طرف مسلم ملکوں کے عوام کا ردعمل دیکھیں تو غزہ اور عراق میں عوام نے خوشی کا اظہار کیا، عوام سڑکوں پر نکل آئے اور انھوں نے اسرائیل کے خلاف جم کر نعرے لگائے، اسی طرح مسلم ملکوں کے عوام اسرائیل کے مخالف ہیں، اور وہ فلسطین کے قیام اور اسرائیل کے خاتمے سے کم کسی چیز کو تسلیم نہیں کرتے۔ کچھ یہی صورتحال ایران کی ہے، ایرانی حکومت اور عوام ایک پیج پر ہیں۔
ایرانی حملے میں اسرائیل کے نیواتم ایئر بیس کو نقصان، تین قسطوں میں 400 میزائل داغے گئے
ایرانی حملے کی بات کریں تو تہران کا دعویٰ ہے کہ حملے کا نشانہ تین اسرائیلی فوجی اڈے تھے، ان میں نیواتم کا ایئربیس بھی شامل ہے، اسی اڈے سے اڑنے والے اسرائیلی طیاروں نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کو نشانہ بنایا اور ایرانی حملے کا مقصد اسماعیل ہنیہ اور حسن نصر اللہ کی شہادت کا بدلہ لینا تھا، ایرانی صدر کا بیان بھی سامنے آگیا ہے کہ ایران کھلی جنگ نہیں چاہتا، حملہ محدود اور اپنے ہدف پر تھا۔
اس خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اسرائیل جوابی حملے میں ایرانی تیل کی تنصیبات اور جوہری تنصیبات کو نشانہ بنا سکتا ہے، وہی ہورہا ہے جس کا ڈر تھا، غزہ، لبنان اور شام پر حملہ تو بہانا تھا، اصل ہدف ایرانی ایٹمی تنصیبات تھیں، اسرائیل کو امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی ملکوں کی مدد حاصل ہے، ایران پر براہ راست حملے کا جواز بھی مل چکا ہے، اقوام متحدہ عضو معطل ہے، مسلم دنیا خوف زدہ اور خاموش ہے، اور وہ ڈری سہمی مذمت سے زیادہ کچھ کرنے کی سکت نہیں رکھتی، مسلمان ملکوں کی تلواریں زنگ آلود اور نیام میں پڑی ہیں، مفادات غالب ہیں، اور دوسری طرف بھیڑیوں نے دانت نکال لیے ہیں، پنجے تیز ہیں، ایران کو چاروں طرف سے گھیرا جاچکا ہے،وہ جانتے ہیں ایران پر حملے کی صورت میں صرف مذمتیں ہی سامنے آئیں گی اور رہا ایران تو وہ بہادر ضرور ہے لیکن کمزور ہے، اور کمزور کو ہڑپ کرنا ہمیشہ سے طاقت ور کی پالیسی ہے۔
ایران 48 گھنٹے میں اسرائیل پر حملہ کر سکتا ہے، امریکی اخبار
پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے صورتحال پر بہت سادا سا بیان دیا ہے لیکن یہ بیان اپنے اندر بہت کچھ سموئے ہوئے ہے، پاکستان کو بھی گھیرا جارہا ہے، بالواسطہ اور بلاواسطہ مسائل پیدا کیے جاچکے ہیں، بلوچستان میں شورش، خیبرپختونخوا میں امن و امان کی صورتحال، افغانستان کی پاکستان دشمنی، بھارت کی چیرہ دستیاں، معاشی بدحالی، قرضوں کا گرداب، عوام کے دل سے وطن کی محبت کیا پھندا تیار کیا جارہا ہے اور اس پھندے میں اگلی گردن پاکستان اور اس کے عوام کی ہوگی؟؟