لاہور ہائیکورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 کے خلاف دونوں درخواستیں یکجا کر کے پیش کرنے کا حکم دے دیا جبکہ عدالت نے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے سے متعلق دلائل طلب کر لیے۔
لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 کے خلاف منیر احمد ایڈووکیٹ کی درخواست پر سماعت کی۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ سے 63 اے نظر ثانی کیس کا فیصلہ ہوا تو یہ درخواست غیر مؤثر ہو جائے گی۔ جس پر چیف جسٹس عالیہ نیلم نے ایڈووکیٹ اظہر صدیق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس درخواست کو سنیں گے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ دونوں درخواستوں میں ایک ہی طرح کے سوالات اٹھائے گئے ہیں جس پر عدالت نے دونوں درخواستیں یکجا کر کے پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کرتے ہوئے دونوں درخواست گزاروں سے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے سے متعلق دلائل طلب کر لیے۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کیخلاف دائر درخواست سماعت کیلئے مقرر کرنے کا حکم
لاہور ہائیکورٹ نے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو معاونت کے لیے 7 اکتوبر کو طلب کر لیا جبکہ عدالت نے افتخار احمد کی نئی درخواست کی کاپی سرکاری وکیل کو فراہم کرنے کی بھی ہدایت کردی۔
درخواست گزار کی جانب سے مؤقف اپنایا گیا کہ صدارتی آرڈیننس بدنیتی پر مبنی ہے، صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم یا زیادہ نہیں کیا جاسکتا۔
درخواست گزار نے استدعا کی کہ عدالت صدارتی آرڈیننس کو کالعدم قرار دے، عدالت پٹیشن کے حتمی فیصلے تک صدارتی آرڈیننس پر عملدرآمد روکنے کا حکم جاری کرے۔
واضح رہے کہ 20 ستمبر کو صدر مملکت آصف زرداری کے دستخط بعد سپریم کورٹ ترمیمی پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 نافذ ہو گیا۔
قبل ازیں وزیر اعظم شہباز شریف اور وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ ترمیمی پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 منظور کیا تھا۔
اطلاعات ونشریات کے وزیر عطا اﷲ تارڑ نے کہا تھا کہ مفاد عامہ اور عدالتی عمل کی شفافیت کے فروغ کے لیے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈنینس 2024 نافذ کردیا گیا۔
ٹی وی پر نشر گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کے تحت کسی مقدمے میں عدالت عظمی کی جانب سے سنائے گئے فیصلے پراپیل کا حق بھی دیا گیا ہے۔
آرڈیننس کے مطابق چیف جسٹس آٖف پاکستان، سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج اور چیف جسٹس کے نامزد جج پر مشتمل کمیٹی کیس مقرر کرے گی، اس سے قبل چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججوں کا تین رکنی بینچ مقدمات مقرر کرتا تھا۔
آرڈیننس کے مطابق بینچ عوامی اہمیت اور بنیادی انسانی حقوق کو مدِنظر رکھتے ہوئے مقدمات کو دیکھے گا، ہر کیس کو اس کی باری پر سنا جائے گا ورنہ وجہ بتائی جائے گی۔
ترمیمی آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ ہر کیس اور اپیل کو ریکارڈ کیا جائے گا اور ٹرانسکرپٹ تیار کیا جائے گا، تمام ریکارڈنگ اور ٹرانسکرپٹ عوام کے لیے دستیاب ہو گا۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کمیٹی مقدمات مقرر کرے گی۔ کمیٹی چیف جسٹس، سینئر ترین جج اور چیف جسٹس کے نامزد جج پر مشتمل ہوگی۔
آرڈیننس میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے سیکشن 3 میں ترمیم شامل ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ میں سیکشن 7 اے اور7 بی کو شامل کیا گیا ہے۔
آرڈیننس میں موجود ہے کہ سماعت سے قبل مفاد عامہ کی وجوہات دینا ہوں گی، سیکشن 7 اے کے تحت ایسے مقدمات جو پہلے دائر ہونگے انہیں پہلے سنا جائے گا، اگر کوئی عدالتی بینچ اپنی ٹرن کے بر خلاف کیس سنے گا تو وجوہات دینا ہونگی۔