اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ آئی جی اور چیف کمشنر بتائیں گے پارلیمنٹ کے اندر پولیس کیسے گئی؟
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ممبر قومی اسمبلی زین قریشی کی 10 ستمبر کو پارلیمنٹ کے اندر سے گرفتاری کے خلاف کیس کی سماعت کی، عدالتی حکم کے باوجود قومی اسمبلی سیکرٹریٹ ، پولیس اور انتظامیہ کی رپورٹ جمع نہ ہوسکی۔
زین قریشی کے وکلا بیرسٹر تیمورملک اورفائزہ ملک عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ اور اسٹیٹ کونسل بھی عدالت میں ہوئے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسٹیٹ کونسل کو ایک ہفتے میں رپورٹ جمع کروانے کی مہلت دیتے ہوئے پوچھا کہ پارلیمنٹ کے اندر سے گرفتاری کیسے ہوئی؟ قومی اسمبلی کے رولز کے مطابق رپورٹ جمع کروائیں۔
پی ٹی آئی اراکین قومی اسمبلی کا 8 روزہ جسمانی ریمانڈ کالعدم قرار، جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل
چیف جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ نوٹس بھیجے تھے سب کو کیا بنا؟ جس پر اسٹیٹ کونسل نے جواب دیا کہ رپورٹ پیش نہیں ہوسکی، کچھ وقت دے دیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ کتنے دن ہو گئے ہیں کیا ہوگیا ہے، 10 دن ہوگئے ہیں، آئی جی اور چیف کمشنر بتائیں گے پارلیمنٹ کے اندر پولیس کیسے گئی، ان کا کہنا ہے پارلیمنٹ کے اندر سے گرفتاری غیر قانونی ہے، آپ نے بتانا کہ کیوں ایسے گرفتار کیا گیا کیا قانونی طریقہ تھا پارلیمنٹ سے گرفتاری کا ، پارلیمنٹ کے رولز اور استحقاق بھی ہے وہ بھی دیکھنے ہوں گے۔
وکیل تیمور ملک نے دلائل دیے کہ رولز بنے ہوئے ہیں قومی اسمبلی کی حدود سے کسی کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا، اسپیکر کی اجازت کے بغیر کسی کو پارلیمنٹ کے اندر سے گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت نے اسٹیٹ کونسل کو ہدایت کی کہ قومی اسمبلی کے رولز دیکھ لیں اور ایک ہفتے میں رپورٹ جمع کروائیں۔ کیس کی سماعت 16 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔