امریکا نے اسرائیلی جارحیت اور مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والی جنگی صورتحال کے بعد خطے میں عسکری سرگرمیوں میں اضافہ کردیا ہے اور اس سلسلے میں فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔
لبنان میں اسرائیل کے حالیہ حملوں سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور ایک بڑے تصادم کا خدشہ پیدا ہوا ہے۔ امریکی ڈیفنس سیکریٹری لائیڈ آسٹن نے اضافی دستوں کے لیے اپنی کوششوں کو مزید تیز کردیا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ضرورت پڑنے پر انھیں فوری طور پر تعینات کیا جا سکتا ہے۔
امریکی دستے
مشرق وسطیٰ میں تقریباً 34,000 امریکی اہلکار تعینات تھے جو اسرائیل اور حماس کے تنازع کے دوران بڑھ کر تقریباً 40,000 تک پہنچ گئی ہیں۔
اہلکاروں کی تعداد اس وقت تقریباً 50 ہزار ہوگئی جب بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر دو طیارہ بردار بحری جہازوں کو علاقے میں رہنے کا حکم دیا گیا۔
امریکہ نے لبنان سے ممکنہ انخلا کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اضافی فوجی بھیجے ہیں۔
امریکی بحری افواج:
امریکی طیارہ بردار بحری جہاز ’ابراہم لنکن‘ جو اس وقت تعینات ہے، اس کے قیام میں توسیع کر دی گئی ہے۔ دیگر کیریئرز اور جنگی جہازوں نے بھی اپنی تعیناتی میں توسیع کر دی ہے۔
امریکی بحری جہاز اسٹریٹجک طور پر مشرقی بحیرہ روم سے خلیج عمان تک واقع ہیں، تباہ کن اور جنگی بحری جہاز خطرات کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔
فضائی نگرانی:
امریکا نے F-22 لڑاکا طیاروں کا ایک اضافی سکواڈرن تعینات کر دیا گیا ہے، جس سے مشرق وسطیٰ میں زمینی اسکواڈرن کی تعداد چار ہو گئی ہے۔
فضائیہ مختلف طیاروں بشمول بشمول A-10s، F-15Es، اور F-16s کی دیکھ بھال بھی کرتی ہے۔ نئے طیارے موجودہ سکواڈرن کی جگہ نہیں لیں گے لیکن دستیاب فضائی طاقت کو دوگنا کر دیں گے۔
F-22s الیکٹرانک جنگ اور فضائی کارروائیوں میں ہم آہنگی کے لیے جدید صلاحیتیں فراہم کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ امریک نے مقامی سطح پر عسکری قیادت یا فورسز کی مدد کے بغیر ہی عراق اور شام میں اپنے اہداف پر بی ون کے ذریعے حملہ کرکے ثابت کرچکا ہے وہ خطے میں جنگ کا نقشہ دور بیٹھے ہی تبدیل کرسکتاہے۔
مشرق وسطیٰ میں امریکی فوج کی بڑھتی ہوئی موجودگی کا مقصد امریکی اور اتحادی افواج کی حفاظت ہے۔