اسرائیل کے حملوں میں حزب اللہ کو شدید نقصان پہنچنے کے بعد اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کے مخصوص یونٹوں کا کردار سامنے آیا ہے۔ برطانوی اخبار فنانشنل ٹائمز اور نشریاتی ادارے بی بی سی اسرائیل کے یونٹ 9200 کے کام کرنے کا طریقہ بیان کیا ہے جو بقول فنانشل ٹائمز لبنان میں ایک پتھر بھی ادھر سے ادھر ہو جانے کا پتہ چلا لیتا ہے۔
اسرائیل کی معروف انٹیلیجنس ایجنسی موساد دسمبر 1949 میں قائم کی گئی تھی تاکہ ملک کو بیرونی خطرات سے محفوظ رکھا جا سکے۔ اس کا مقصد اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔
تاہم حالیہ حملوں میں اسرائیل کی ملٹری انٹیلیجنس ایجنسی ’آمان‘ کا کردار دیکھا گیا ہے۔ آمان جنرل اسٹاف کے تحت کام کرتی ہے اور اس کا بنیادی کام معلومات کا حصول اور اس کا تجزیہ کرنا ہے۔ آمان کی تاریخ برطانوی دورِ حکومت سے بھی قدیم ہے، جب ’شائی‘ نامی جاسوس ایجنسی صیہونی تنظیم ’ہگاناہ‘ کے انٹیلیجنس وِنگ کے طور پر کام کرتی تھی۔
آمان کے تین اہم یونٹس 8200، 9900، اور 504 ہیں۔ حال ہی میں، اسرائیل نے اپنے انٹیلیجنس سرکل میں ایک نئے یونٹ ’برانچ 54‘ کا اضافہ کیا ہے، جس کی ذمہ داری ایران اور پاسدارانِ انقلاب کے ساتھ ممکنہ جنگ کی تیاریاں کرنا ہے۔
برانچ 9900
یونٹ 9900 کو اسرائیل کے انٹیلیجنس نظام کی ”آنکھیں“ کہا جا سکتا ہے۔ یہ یونٹ تصویری اور ویڈیو انٹیلیجنس کے حصول میں مہارت رکھتا ہے، اور سیٹلائٹ، جاسوس جہازوں، اور ڈرون طیاروں کا استعمال کرتا ہے۔ یونٹ 9900 کی ذمہ داریوں میں انٹیلیجنس کے تجزیے پر مبنی رپورٹس تیار کرنا بھی شامل ہے جو فیصلہ سازوں اور فوجی کمانڈرز کو فراہم کی جاتی ہیں۔
یونٹ 9900 جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے جنگ میں مصروف فوج کو تھری ڈی نقشے فراہم کرتا ہے۔ 2020 میں، اس یونٹ میں ایک نیا ذیلی یونٹ قائم کیا گیا جس کا مقصد جاسوس ڈرونز کی سرگرمیوں کو بڑھانا ہے۔ اسی سال، صحافیوں کو یونٹ 9900 کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے لیے مدعو کیا گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شہری علاقوں میں انٹیلیجنس جمع کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق یونٹ 9900 ایران کی نگرانی کے لیے اسرائیل کی جاسوس سیٹلائٹ افق 13 کا استعمال کرتا ہے۔
حسن نصراللہ کا قتل خطے میں طاقت کا توازن بدلنے کیلئے ضروری تھا، اسرائیلی وزیراعظم
فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اس یونٹ کی ایک ذمہ الگوریتم لکھنا بھی ہے، اس الگوتیرم کی بدولت کروڑوں تصاویر کا جائزہ لے کر اس میں موجود معمولی سے مشکوک چیز کی موجودگی یا تبدیلی کی بھی نشاندہی کرنا ہے اس میں سڑک پر لگے بم کی نشاندہی، کسی ٹنل پر کوئی معمولی سا بھی تعمیراتی کام وغیرہ۔
رپورٹ کے مطابق متعدد اسرائیلی حکام کے مطابق ایک مرتبہ حزب اللہ کے کارکن کی نشاندہی ہوجائے تو اس کے ہر حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے اور اس کے زیر استعمال تمام آلات کی جاسوسی شروع ہوجاتی ہے جس میں اس کی اہلیہ سے گفتگو بھی شامل ہے۔ سی سی ٹی وی کیمروں سے حزب اللہ کے کارکن کی لوکیشن حاصل کی جاتی ہے اور ٹیلی ویژن کے ریموٹ کنٹرول کے وائس آپشن کے ذریعے بھی جاسوسی کی جاتی ہے۔
ایک اسرائیلی عہدیدار نے بتایا کہ حزب اللہ کے کارکنوں کی روز مرہ سرگرمیوں میں معمولی تبدیلی پر اسرائیلی حکام الرٹ ہوجاتے ہیں اور ہم نے اسی طریقہ کار کی بدولت آئی ڈی ایف فورسز کو ہراساں کرنے والے انٹی ٹینک اسکوارڈ کے درمیانی درجے کے دو تین حزب اللہ کمانڈرز کو نشانہ بنایا تھا۔
حزب اللہ نے تین دہائی قبل اپنے سیکریٹری جنرل کے قتل کا بدلہ کیسے لیا تھا؟
اسرائیلی عہدیدار کے مطابق کئی مرتبہ ہمیں ایسے کامیابی ملی کہ حزب اللہ کے کمانڈر کو روز مرہ معمولات کے دوران غیر معمولی جلد بازی میں دیکھا گیا، عمومی طور پر یہ جلد بازی ممکنہ طور پر حزب اللہ کے حملے کی حکمت عملی میں مشاورت کی وجہ سے ہوتی ہے۔
آئی ڈی ایف کے پبلک بیان کے مطابق ہرایک عمل وقت اور تحمل مزاجی کا تقاضہ کرتا ہے۔ کئی برس کے بعد اسرائیلی انٹیلی جنس اس قابل ہوئی کہ اس نے فضائی حملوں کے پہلے تین دن میں 3 ہزار مشتبہ حزب اللہ کے کارکنوں کو نشانہ بنایا۔
برانچ 8200
8200 اسرائیلی انٹیلیجنس نظام کا ایک اہم ستون سمجھا جاتا ہے جو اسرائیلی فوج کی الیکٹرانک جاسوسی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ یہ یونٹ اسرائیلی فوج کا سب سے بڑا اور اہم ملٹری انٹیلیجنس یونٹ ہے، جس میں 10 ہزار سے زائد اہلکار شامل ہیں۔ اہلکاروں کا انتخاب ایلیٹ اور پڑھی لکھی فورسز میں سے کیا جاتا ہے، اور اس یونٹ میں کام کرنے والے افراد کی تعداد موساد اور شن بیٹ کے اہلکاروں سے بھی زیادہ ہے۔
اسرائیل کا یمن میں حدیدہ بندرگاہ پر بھی حملہ؛ نتائج بھگتنے ہوں گے، یمنی فوج
یونٹ 8200 کو ٹیکنالوجی کے لحاظ سے دنیا کی بڑی جاسوس ایجنسیوں، خاص طور پر امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے ہم پلہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ یونٹ ہمیشہ خفیہ سرگرمیوں میں مشغول رہا ہے، لیکن عسکری اور انٹیلیجنس ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نے اسرائیل کے دفاعی اور جارحانہ آپریشنز میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یونٹ 8200 کو 2010 میں ایران کی جوہری تنصیبات پر سائبر حملے میں ملوث ہونے کا بھی الزام دیا گیا ہے، جہاں اس نے سٹکس نیٹ نامی وائرس استعمال کیا۔
یونٹ 8200 کی ذمہ داریوں میں ڈیجیٹل اور الیکٹرانک آلات کی تخلیق، معلومات کا حصول، تجزیہ، اور متعلقہ حکام کو ارسال کرنا شامل ہے۔ یہ یونٹ اسرائیل کے تمام علاقوں میں متحرک ہے اور جنگی حالات میں اسرائیلی فوج کے ہیڈکوارٹرز سے کام کرتا ہے، تاکہ معلومات تک رسائی کو تیز بنایا جا سکے۔
یونٹ 8200 کی بنیاد 1952 میں رکھی گئی تھی، اور اسے پہلے ’سیکنڈ انٹیلیجنس سروسز یونٹ‘ کہا جاتا تھا۔ اس نے 1967 کی عرب-اسرائیلی جنگ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ حالیہ دنوں میں، حماس کے حملے کے بعد یونٹ 8200 کی سرگرمیاں اسرائیلی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، اس یونٹ نے حماس کے ریڈیو کی نگرانی ایک سال پہلے بند کر دی تھی، جس کی وجہ سے سوالات اٹھ رہے ہیں کہ آیا یہ کارروائیوں کی ناکامی کا باعث بنی۔
یونٹ 504
یونٹ 504 اسرائیلی فوج کی ہیومن انٹیلیجنس جمع کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا، جس کی بنیادی ذمہ داری داخلی خطرات کی نگرانی کرنا ہے۔ یہ یونٹ اسرائیل کی سرحد کے باہر جاسوس بھی بھرتی کرتا ہے، اور اس کے اہلکار غزہ سمیت دیگر ممالک میں بھی کام کر رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق، یونٹ 504 ملک کی سلامتی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس نے سینکڑوں کامیاب آپریشنز کیے ہیں، حالانکہ اس کی سرگرمیوں سے کم لوگ واقف ہیں۔
لبنان میں صیدون اور بالبک حمل پر اسرائیلی حملوں میں 56 افراد جاں بحق
یونٹ 504 انٹیلیجنس جمع کرنے کے لیے لوگوں کا استعمال کرتا ہے اور اکثر موساد اور شن بیٹ کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ حالیہ دنوں میں، 7 اکتوبر کے حملے کے بعد، اس نے جنوبی اسرائیل میں اپنا کمانڈ ہیڈکوارٹر قائم کیا اور غزہ پر توجہ مرکوز کی۔ غزہ میں جاری جنگ کے دوران، شفا ہسپتال کے محاصرے کے وقت، ایرانی میڈیا نے بتایا کہ یونٹ 504 کی معلومات کے مطابق وہاں حماس کے 80 سے 100 اراکین موجود تھے۔ علاوہ ازیں، شام میں خانہ جنگی کے دوران بشار الاسد کو اپوزیشن کے ساتھ تناؤ کم کرنے کے لیے راضی کرنے میں بھی اس یونٹ نے اہم کردار ادا کیا۔ 2019 میں، اسرائیلی فوج نے یونٹ 504 کو شمالی اسرائیل میں دہشتگرد حملے ناکام بنانے پر سراہا۔