خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں تمام قبائل کے درمیان جھڑپیں روکوا دی گئی ہیں، متحارب قبائل کے مورچوں پر پولیس اور فورسز کے اہلکار تعینات کردئیے گئے ہیں، آٹھ روزہ جھڑپوں میں 50 افراد جاں بحق اور 120 زخمی ہوئے۔
ڈپٹی کمشنر ضلع کرم جاوید اللہ محسود کے مطابق ضلع کرم کے تمام علاقوں میں قبائل کے مابین جھڑپیں بند کرا دی گئی ہیں۔
خیال رہے کہ یہ اس قسم کی پہلی خونی جھڑپیں نہیں بلکہ، جولائی میں بھی اسی طرح کی جھڑپیں اور سیز فائر ہوا تھا۔
ڈی سی کرم کا کہنا ہے کہ پیواڑ، تری منگل، کنج، علیزئی، مقبل اور پاڑہ چمکنی کڑمان کے علاقوں میں فریقین کے عمائدین اور جرگہ ممبران کے تعاون سے فورسز پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے قابو پالیا اور قبائل کے مورچوں پر سفید جھنڈے لہرا کر پولیس اور فورسز کے دستے تعینات کردئیے گئے۔
ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ فائر بندی کے بعد علاقے میں دیرپا امن کے قیام کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ آٹھ روز قبل اپر کرم کے علاقہ بوشہرہ میں ایک مورچے کی تعمیر کے تنازعے پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا جس کے بعد مختلف علاقوں میں جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور خونی جھڑپیں مجموعی طور پر 50 افراد کی جانیں نگلنے کے بعد بند کرائی گئیں، جبکہ 120 افراد زخمی ہوئے، جھڑپوں میں بھاری اور خودکار ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔
جاوید اللہ محسود کے مطابق پاراچنار، پشاور مین شاہراہ سمیت آمد و رفت کے راستے اور تعلیمی ادارے تاحال بند ہیں۔
طوری قبائل کے رہنما جلال حسین ، سید تجمل حسین اور بنگش قبائل کے رہنما ملک فخر زمان اور حاجی سلیم خان نے قیام امن میں عوام سے اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیا ہے۔
رکن قومی اسمبلی حمید حسین نے کہا ہے کہ ضلع کے لوگ امن قائم کرکے علاقے کی ترقی کیلئے راہ ہموار کریں کیونکہ لڑائی جھگڑوں سے تباہی اور بربادی کے علاؤہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔