بین الاقوامی، دفاعی اور اسٹریٹجک امور کے تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ فلسطینیوں اور لبنانیوں کے خلاف اسرائیل کی من مانی اور انسانیت سوز کارروائیاں اُسی وقت ختم ہوسکتی ہیں جب اس کی پشت پناہی کرنے والی بڑی طاقتیں ایسا چاہیں۔ انہوں نے اسرائیل کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے جس کے نتیجے میں وہ بدمست ہاتھی کی طرح دندناتا پھر رہا ہے، فلسطینیوں اور لبنانی باشندوں کو سب کو اپنے پیروں تلے روند رہا ہے۔
آج نیوز کے تجزیہ کار شوکت پراچہ نے کہا کہ اسرائیلی نے جدید ترین ٹیکنالوجیز میں مہارت کا ثبوت فراہم کردیا ہے۔ وہ ہائی ٹیک کی مدد سے جنگ میں برتری حاصل کرنا چاہتا ہے اور کر رہا ہے۔ وہ اپنے اہداف آسانی سے حاصل کر رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں اُسے ایڈوانٹیج مل رہا ہے۔
ایک سوال پر شوکت پراچہ نے کہا کہ جو طاقتیں اسرائیل کو روک سکتی ہیں وہی اُسے شہہ دے رہی ہیں، پشت پناہی کر رہے ہیں۔ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر کیے جانے والے حملوں کو بہانہ بناکر اسرائیلی فوج نے پہلے فلسطینیوں کو کچل کر رکھ دیا اور اب وہ جنوبی لبنان میں قتل و غارت کا بازار گرم کیے ہوئے ہے۔ اسرائیل نے غزہ میں شہریوں کو نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسکولوں، اسپتالوں اور کیمپوں پر انتہائی بے شرمی اور سفاکی سے حملے کیے گئے۔
شوکت پراچہ نے کہا اسرائیل نے امدادی اداروں کو بھی نہیں بخشا۔ افریقا جیسے انتہائی خطے میں بھی امدادی اداروں اور ہیلتھ ورکرز کو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ اسرائیل نے غزہ میں امدادی اداروں کو بھی نہیں بخشا۔ ہیلتھ ورکرز کو بھی نشانہ بنایا ہے۔
شوکت پراچہ کا کہنا تھا کہ کسی معمولی سی غلطی پر بھی مسلم ممالک پر پابندیاں عائد کرنے میں دیر نہیں لگائی جاتی مگر اسرائیل کھل کر تمام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور اس کے خلاف کچھ بھی نہیں کیا جارہا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اگر کوئی قرارداد منظور کرے گی تو امریکا اُسے ویٹو کردے گا۔
انہوں نے کہا کہ مسلم دنیا کا ردِعمل زبانی جمع خرچ تک محدود رہا ہے۔ او آئی سی کا ایک اجلاس ہوا جس میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی مگر اس کمیٹی کے ارکان بھی صرف دورے کیے ہیں اور متعدد ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کو حملوں سے باز رکھے۔ اس کا کچھ فائدہ نہیں پہنچا ہے۔
شوکت پراچہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اسرائیل اپنے وجود اور طریقِ حکومت کے خلاف مزاحمت کی علامت بننے والے ہر فرد اور گروپ کو ختم کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ شہریوں کو انتہائی بے دردی سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ شہری آبادیوں پر حملے کیے جارہے ہیں۔ کولیٹرل ڈیمیج کا تصور پوری طرح فعال ہے۔ گزرے ہوئے زمانوں میں کسی فرد یا گروہ کے حملوں کے جواب میں پوری آبادیاں تباہ کردی جاتی تھیں۔ اسرائیل نے اکیسویں صدی میں وہی تصور دوبارہ زندہ کیا ہے۔ بیروت میں حزب اللہ کے ہیڈ کوارٹرز کو تباہ کیا گیا ہے جو سویلین آبادی کے قلب میں واقع تھا۔
ایک اور سوال پر شوکت پراچہ نے کہا کہ عالمی ضمیر مردہ ہوچکا ہے۔ اگر عالمی ضمیر زندہ ہوتا تو اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو کو نیو یارک میں لینڈ کرنے کی جرات نہ ہوتی۔ جس آدمی کے ہاتھوں پر چالیس ہزار فلسطینیوں اور سیکڑوں لبنانیوں کے خون کے دھبے ہیں وہ انتہائی بے شرمی سے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرگیا۔ عالمی ضمیر مردہ بھی ہے اور امتیازی بھی۔ مسلمانوں کو نشانہ بنانے میں سب پیش پیش ہیں۔ کبھی دہشت گردی کا بہانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی اسلامو فوبیا کی آڑ میں قتل و غارت کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں میں اتحاد برائے نام بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ اسرائیل اس کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ وہ جدید ترین ٹیکنالوجیز استعمال کرتے ہوئے جنگ کو نئے مرحلے تک لے گیا ہے۔ اس وقت مشرقِ وسطیٰ مکمل جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
آج نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار ہما بقائی نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ شدید خطرات کی لپیٹ میں ہے۔ ایران کے ایٹمی مذاکرات کار اور قومی سلامتی کے ماہر لاریجانی بھی کہہ چکے ہیں کہ مکمل جنگ کا خطرہ شدت اختیار کرگیا ہے۔ اسرائیل نے جدید ترین ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے جنگ کے خطرے کو شدید تر کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کہتا ہے کہ وہ مزاحمت کی علامت بننے والی ہر شخصیت کو ختم کردے گا۔ اسے یہ بات سمجھنا ہوگی کہ تحریک کسی شخصیت کی محتاج نہیں ہوتی۔ لوگ آتے اور جاتے رہتے ہیں۔ غزہ اور لبنان میں بھی مزاحمت جاری رہے گی۔ حماس کو ختم کیا جاسکا ہے نہ حزب اللہ کو۔ کمانڈرز شہید ہوئے ہیں مگر مزاحمت باقی ہے، تحریک زندہ ہے۔
ہما بقائی نے کہا کہ اسرائیل نے لڑائی کے دوران جدید ترین ٹیکنالوجیز کے ذریعے شہریوں کو بھی بڑے پیمانے پر موت کے گھاٹ اتار کر تمام تسلیم شدہ بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑائی ہیں۔ وہ بدمست ہاتھی کی طرح مزاحمت کرنے والی ہر قوت کو روندتا پھر رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بیروت میں حزب اللہ کے خلاف کارروائی کے دوران سویلین علاقے میں کلسٹر بم گرائے جو زمین میں بہت نیچے تک پہنچ کر تباہی پھیلاتے ہیں۔ حسن نصراللہ بنکر میں سات منزل نیچے تھے۔ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں کیا جارہا۔ عالمی برادری اسرائیل کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتی کیونکہ امریکا اور برطانیہ کسی بھی قرارداد کو ویٹو کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ 7 اکتوبر کے حملوں کو بہانہ یا جواز بناکر قتل و غارت کا بازار گرم رکھا جارہا ہے۔
ہما بقائی نے کہا کہ بڑی طاقتوں کی پشت پناہی سے اسرائیل ہر مزاحمتی قوت کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل پر مختلف جہتوں سے حملے بڑھیں گے۔ حماس اور حزب اللہ کے علاوہ عراق اور یمن سے بھی مزاحمتی گروپ اسرائیل پر حملے بڑھائیں گے۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والی قوتوں کو آگے آنا پڑے گا۔ ایسے میں یہ علاقائی معاملہ کسی عالمی جنگ کی شکل بھی اختیار کرسکتا ہے۔ اگر اسرائیل پر حملے بڑھ گئے تو بڑی طاقتوں کا اس قضیے میں ملوث ہونا ٹرننگ پوائنٹ ہوگا۔