اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد سے متعلق تمام کیسز میں تحقیقاتی کمیٹی ممبران کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا، حساس اداروں کے افسران پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی آئندہ سماعت پر عدالت کو بریفنگ دے گی۔
جمعرات کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں لاپتہ افراد سے متعلق کیسز کی سماعت ہوئی۔
دوران سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ جبری گمشدہ افراد کمیشن کی ورکنگ کو تو ہم الگ دائر ہوئی درخواست میں دیکھیں گے، جب چیزیں بےکار ہو جائیں تو اُنہیں ختم کر دینا چاہیے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا کمیشن نے آرڈر پر عملدرآمد نہ ہونے پر کبھی توہین کا اختیار استعمال کیا ہے؟
جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ اِس کمیشن کے پاس بہت وسیع اختیارات ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دئے کہ قانون استعمال کرنے کیلئے ہوتا ہے، ریاست نے اگرکمپنسیشن ہی دینی ہے تو پھر کمیشن کی کیا ضرورت ہے؟ یہ بھی کریڈٹ لیتے ہیں کہ بندہ فلاں تاریخ کو گھر پہنچ گیا، یہ تو بہت اچھا کام ہو گیا اس کا میڈل کس کو ملنا چاہیے۔
عدالت نے سوال کیا کہ کمیشن نے کبھی سوچا گمشدہ کیوں ہوئے، کس نے کیے اور کس کو پراسیکیوٹ کرنا ہے؟
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کمیشن نے تو عدالتوں کا کام اور زیادہ بڑھا دیا ہے، اِس کمیشن کی رپورٹس ہماری ریاست کے خلاف استعمال ہوں گی، کوئی سوچ نہیں رہا کہ ہم ایک دن بطور ریاست اِن کیسز کی وجہ سے پراسیکیوٹ ہوں گے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دئے کہ ہم آج تک صرف انکار ہی کرتے آ رہے ہیں، مختلف ریاستوں میں طریقہ کار طے کیا جا چکا ہے، سینٹرز بنا دیے گئے، وہ لوگ اپنی فیملیز سے بھی ملتے ہیں لیکن اُن سینٹرز میں رہتے ہیں، اگر کوئی دہشت گرد ہے تو آپ کا اس کا دماغ تو نہیں بدل سکتے۔
وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ یہ کمیشن گمشدہ افراد کے کیسز حل کرنے کیلئے نہیں بلکہ اُن کو التواء میں ڈالنے کیلئے کام کرتا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ عالمی معیار پر ہم بطور ریاست کیسے پورا اترتے ہیں؟ عالمی طور پر ہم کل کہاں جوابدہ ہو جائیں یہ کس کو پتہ ہے؟
عدالت کا کہنا تھا کہ اس عدالت میں بھی ساڑھے 16 ہزار مقدمات ہیں، تمام کوششوں کے باوجود حل نہیں ہو پا رہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اِن کو بھی اپنے کام میں وقت لگے گا۔
ایمان مزاری نے کہا کہ اگر یہ کہتے ہیں کہ یہ سب دہشت گرد ہیں اور ہم اٹھائیں گے پھر تو عدالتیں بند کر دیں، عدالتیں بند ہی ہیں نا، کونسا کھلی ہوئی ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ایمان مزاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اُن لوگوں کی بھی بات کریں جن کو بسوں سے اتار کر قتل کر دیا گیا، اب دیکھنا ہے کہ بلوچستان یا وفاقی حکومت نے سیاسی طور پر اس مسئلے کو کیسے حل کرنا ہے۔
عدالت نے کہا کہ لاپتہ افراد سے متعلق تحقیقاتی کمیٹی کی پیشی پر آئندہ ان کیمرہ سماعت ہوگی۔
عدالت نے ایمان مزاری کو معاونت کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ کمیشن کے اخراجات آرٹیکل 109 میں ایکسرسائز ہوسکتے ہیں؟
عدالت نے آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے افسران پر مشتمل کمیٹی کو آئندہ سماعت پر پیشی یقینی بنانے کی ہدایت کردی۔
عدالت نے کہا کہ آئندہ سماعت ہم جمعرات کو ہی کریں گے مگر کونسی جمعرات کو وہ بعد میں بتائیں گے۔
عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔