وزیر داخلہ سندھ ضیاء الحسن لنجار کا کہنا ہے کہ عمر کوٹ میں توہین مذہب کے ملزم ڈاکٹر شاہنواز کنبھار کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیا ہے۔
صوبائی وزیر داخلہ ضیاء لنجار نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ عمرکوٹ میں پولیس اہلکاروں پر جعلی مقابلے کا الزام تھا، انکوائری میں الزام درست ثابت ہونے پرا اہلکاروں کو معطل کردیا گیا۔
ضیاء لنجار نے بتایا کہ وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی ہدایت پر ڈاکٹر شاہنواز کے قتل سے متعلق انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، انکوائری کے دوران سی سی ٹی وی سے بھی مدد لی گئی، تحقیقات مکمل کرکے وزیرِاعلیٰ سندھ کو رپورٹ پیش کی گئی، انکوائری کمیٹی کی یہ رپورٹ 31 صفحات پر مشتمل ہے۔
خیال رہے کہ 20 ستمبر 2024 کو سندھ کے علاقے عمر کوٹ میں پولیس نے توہین مذہب کے الزام کا سامنا کرنے والے ایک ڈاکٹر کو مبینہ پولیس مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا تھا۔ یہ ایک ہفتے کے دوران اس نوعیت کے ماورائے عدالت کا دوسرا واقعہ تھا، جس کی انسانی حقوق کے گرپوں نے شدید مذمت کی تھی۔
پولیس نے مقتول کی شناخت ڈاکٹر شاہ نواز کے نام سے کی، جو مارے جانے سے دو روز قبل مبینہ طور پر توہین مذہب کے الزام کے بعد روپوش ہو گئے تھے۔
توہین رسالت کے ملزم کو قتل کرنیوالے پولیس اہلکار کو مقتول کے اہلخانہ نے معاف کردیا
مقامی پولیس کے سربراہ نیاز کھوسو نے بتایا تھا کہ بدھ کی رات پولیس افسران نے موٹر سائیکل پر سوار دو افراد کو رکنے کا اشارہ کیا تو انہوں نے رکنے کے بجائے پولیس پر فائرنگ کی اور فرار ہونے کی کوشش کی، جس کے بعد پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے ملزم شاہ نواز کو موقع پر ہلاک کر دیا، جبکہ ملزمان میں سے ایک موٹر سائیکل پر فرار ہو گیا۔
نیاز کھوسو نے دعویٰ کیا تھا کہ فائرنگ کے تبادلے کے بعد ہی افسران کو معلوم ہوا کہ مقتول وہ ڈاکٹر تھا، جسے مبینہ طور پر توہین مذہب کے الزام میں ڈھونڈا جا رہا تھا۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں مقامی علماء کو پولیس پر گلاب کی پتیاں نچھاور کرتے اور توہین رسالت کے ملزم کو ہلاک کرنے پر افسران کی تعریف کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ ملزم کی ہلاکت کن حالات میں ہوئی اس بارے میں سندھ حکومت کی جانب سے فوری طور پر کوئی وضاحت نہیں کی گئی اور تحقیقات کا اعلان کردیا گیا۔
دوسری جانب مقامہ افراد نے مقتول کی تدفین بھی نہیں ہونے دی گئی اور اس کی لاش کو آگ لگا دی گئی۔ بعدازاں اہل خانہ نے بیابان میں مقتول کی تدفین کی۔
اب ضیاء لنجار کا کہنا ہے کہ انکوائری میں ثابت ہوا یہ پولیس مقابلہ نہیں تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایس ایس پی میرپور خاص معطل ہوگئے ہیں۔
پاکستان میں پہلی بار پیکا عدالت سے مسیحی خاتون کو توہین رسالت کیس میں سزائے موت
وزیر داخلہ نے کہا کہ مقتول کی فیملی جلدازجلد ایف آئی آر کٹوائے تاکہ مزید کارروائی کی جاسکے، فیملی نے ایف آئی آر نہ کٹوائی تو ریاست ایف آئی آر کٹوائے گی، تمام ملوث افسران کے خلاف ایف آئی آر ہوگی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی ججمنٹ ہے ایک واقعے کی ایک ہی مقدمہ ہوگا۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ اس میں یقیناً ڈی آئی جی ملوث ہیں، میری ذمہ داری ہے کہ پولیس کا مورال عوام کی نظر میں بہتر ہو، رپورٹ میں یہ کلیئر ہے کہ یہ انکاؤنٹر ہے، یہ ڈسپلنری کارروائی ہے۔
ضیاء لنجار نے کہا کہ پولیس اس معاشری کے تحفظ کے لیے ہے، ہم نے نیا ڈی آئی جی لگایا ہے میرپور خاص میں، چھ ایف آئی آرز کی تفتیش ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ متاثرہ خاندان کے لیے معاوضے کے لیے اعلان کریں گے۔
حکومت سندھ کو پولیس کی ابتدائی انکوائری رپورٹ موصول ہوگئی ہے جس میں کہا گیا ہے ڈاکٹر شاہنواز کو جعلی مقابلے میں مارا گیا۔
رپورٹ میں پولیس کو جعلی مقابلے کا حکم دینے والے ذمہ داران کا بھی تعین کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق عمر کوٹ پولیس نے 18 گریڈ کے ڈاکٹر شاہنواز کو کراچی سے گرفتار کیا، ڈاکٹر شاہنواز کو گرفتار کرکے میرپور خاص پولیس کے حوالے کیا گیا، میرپور خاص پولیس نے ڈاکٹر شاہنواز کو قتل کیا اور اسے مقابلہ کا نام دینے کی کوشش کی۔
انکوائری رپورٹ میں کہا گیا کہ واقعے نے سندھ پولیس کے امیج کو بھی خراب کیا، میرپور خاص رینج کی پولیس نے ڈاکٹر شاہنواز قتل پر جشن بھی منایا۔
رپورٹ کے مطابق متعلقہ پولیس افسران میں ڈی آئی جی میرپور خاص اور ایس ایس پی میرپورخاص شامل ہیں۔
رپورٹ می سفارش کی گئی کہ ایس ایس پی عمرکوٹ پر بھی مقدمہ درج کیا جائے، واقعے کی مزید انکوائری سی ٹی ڈی سے بھی کروائی جائے۔
معطل ہونے والوں میں ڈی آئی جی میرپورخاص جاوید جسکانی اور ایس ایس پی اسد چوہدری شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ایس ایس پی عمرکوٹ کے حوالے سے محکمہ جاتی کارروائی بھی عمل میں لائی جائے۔