Aaj Logo

شائع 26 ستمبر 2024 09:16pm

ٹیکس نہ دینے والوں پر ایسی پابندیاں لگائیں گے کہ وہ بہت سے کام نہیں کرسکیں گے، وزیر خزانہ

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا پاکستان کیلئے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے بیل آؤٹ پیکیج کی منظوری پر کہنا ہے کہ امریکی مدد اور چین کا تعاون پروگرام کی منظوری کی وجہ بنا ہے۔

آئی ایم ایف نے جمعرات کو پاکستان کے بیل آؤٹ پیکج کی مد میں ایک ارب ڈالر کی پہلی قسط جاری کردی ہے، جس کی منظوری آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ نے دی، نیا قرض پروگرام 37 ماہ پر مشتمل ہے۔

قومی بچت اسکیموں کے شرح منافع کا اعلان

وزیر خزانہ نے نیویارک میں امریکی خبر رساں ادارے وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ نئے قرض پروگرام کی منظوری میں امریکہ نے مدد کی، چین کے تعاون سے ہی قرض پروگرام کا حصول ممکن ہوا۔

ٹیکس ریٹرنز سے اربوں ملنے کی امید، حکومت کو منی بجٹ کی ضرورت نہ رہی

خیال رہے کہ آئی ایم ایف کا اپنے اعلامیے میں کہنا تھا کہ پاکستان میں معاشی شرح نمو 2.4 فیصد تک پہنچ گئی ہے جبکہ افراط زر میں بھی کمی واقع ہوئی ہے تاہم پاکستان اب بھی کئی بڑے چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، جن میں مشکل کاروباری ماحول، کمزور حکمرانی، اور محدود ٹیکس بیس شامل ہیں۔

اس حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ ملکی معیشت میں بنیادی اصلاحات لانا ہوں گی، حکومت کے پاس اصلاحات کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ تنخواہ دار اور مینوفیکچرنگ طبقے پر جو اضافی بوجھ ڈالا گیا تھا اسے کم کیا جائے گا، ریٹیلرز، ہول سیلرز، زراعت اور پراپرٹی کے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ ماضی میں بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرتا رہا ہے، امید ہے کہ مستقبل میں اس میں مزید اضافہ ہوگا۔

وزیرِ خزانہ نے کہا کہ دوست ممالک سے جو قرض لیا ہے اس میں چین کا حجم سب سے زیادہ ہے، آئی ایم ایف پوچھتا ہے کہ اسے واپس کیسے کریں گے، حکومت کے پاس اب معاشی اصلاحات کے سوا کوئی چارہ نہیں، اس کے لیے ٹیکس نیٹ سے باہر موجود شعبوں کو دائرہ کار میں لانا ہوگا، گزشتہ برس محصولات میں 29 فی صد اضافے کے باوجود ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 9 فی صد رہی، 9 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی کسی بھی ملک کی معیشت کو استحکام نہیں دلا سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت اب نان فائلر کی اصطلاح ختم کرنے جارہی ہے، ٹیکس نہ دینے والوں پر ایسی پابندیاں لگائیں گے کہ وہ بہت سے کام نہیں کرسکیں گے، حکومت کے پاس لوگوں کے طرزِ زندگی کا ڈیٹا موجود ہے، کس کے پاس کتنی گاڑیاں ہیں،کتنے بیرونِ ممالک سفر کئے سب معلومات ہیں۔

Read Comments