پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں دینے کے معاملے پر الیکشن کمیشن نے وضاحت کے لیے ایک بار پھر سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا جبکہ الیکشن کمیشن نے بالآخر مخصوص نشستوں پر اعلامیہ جاری کردیا۔۔
مخصوص نشستوں کے معاملے پر 7 روزبے نتیجہ ختم ہونے والے اجلاسوں کے 8 ویں روز نتیجہ نکل آیا، الیکشن کمیشن نے ایک بار پھر سپریم کورٹ سے وضاحت مانگ لی۔
سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ 12 جولائی کے مختصر فیصلے پر جب وضاحت مانگی گئی تھی تب نیا ایکٹ موجود نہیں تھا، الیکشن ترمیمی ایکٹ آنے کے بعد عدالتی فیصلے پر رہنمائی کی جائے، پارلیمنٹ نے الیکشن ترمیمی ایکٹ کی صورت میں اب قانون بنا دیا ہے، بتایا جائے پارلیمنٹ کے قانون پر عملدرآمد کریں یا سپریم کورٹ کے فیصلے پر۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے، سپریم کورٹ کے 12 جولائی، 14 ستمبر اور23 ستمبر کے حکم ناموں پراثرات سے متعلق رہنمائی کی جائے، الیکشن کمیشن کے رویے سے صاف ظاہرہے کہ عدالتی احکامات پرعملدرآمد کرنا چاہتا ہے اگر 14 ستمبر کے حکم نامے پرعملدرآمد کرتا ہے تو یہ پارلیمان کے بنائے ہوئےقانون کی خلاف ورزی ہوگی۔
الیکشن کمیشن نے درخواست میں مزید کہا کہ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے فیصلےکااحترام کرتاہے اورہدایات سے انکارنہیں کرسکتا تاہم تحریک انصاف کے درست پارٹی اسٹرکچرکی عدم موجودگی میں امیدواروں کی وابستگی کیسے معلوم ہوگی۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن نے بالآخر مخصوص نشستوں کے معاملے پر اعلامیہ جاری کر دیا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے تفصیلی آرڈر پر غور کیا گیا، وضاحتی آرڈر میں چند پوائنٹس پر ریویو داخل کر دیا گیا۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ پارلیمنٹ کے منظور شدہ قانون کی روشنی میں کمیشن کو عمل کرنا ہوگا، اس پر سپریم کورٹ میں CMA داخل کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز مخصوص نشستوں کے کیس کے حوالے سے غور کے لیے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی زیر صدارت الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ساتواں اجلاس منعقد ہوا تھا۔
23 ستمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کے تفصیلی فیصلہ میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کا یکم مارچ فیصلہ آئین سے متصادم ہے۔
مخصوص نشستوں سے متعلق تفصیلی فیصلہ 70 صفحات پر مشتمل ہے، تفصیلی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا تھا جبکہ سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلہ اردو زبان میں بھی جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔
تفصیلی فیصلے میں بتایا گیا تھا کہ سپریم کورٹ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کوکالعدم قرار دیتی ہے، الیکشن میں سب سے بڑا اسٹیک عوام کا ہوتا ہے، انتخابی تنازع بنیادی طور پر دیگر سول تنازعات سے مختلف ہوتا ہے، یہ سمجھنے کی بہت کوشش کی کہ سیاسی جماعتوں کے نظام پر مبنی پارلیمانی جمہوریت میں اتنے آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟
تحریری فیصلے میں بتایا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کا ضامن اور حکومت کا چوتھا ستون ہے، الیکشن کمیشن فروری 2024 میں اپنا یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا۔
6 مئی کو سپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے معاملہ لارجر بینچ کو ارسال کردیا تھا۔
3 مئی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔
4 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے 28 فروری کو درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کےسیکشن 104 کےتحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کردیا تھا۔
چار ایک کی اکثریت سے جاری 22 صفحات پر مشتمل فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتی، قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ جمع نہیں کرائی۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی، یہ مخصوص متناسب نمائندگی کے طریقے سے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔
الیکشن کمیشن نے تمام خالی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن (جے یو آئی ف) کو دینے کی درخواست منظور کی تھی۔
چیف الیکشن کمشنر، ممبر سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے اکثریتی فیصلے کی حمایت کی جب کہ ممبر پنجاب بابر بھروانہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
بعد ازاں 4 مارچ کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔
12 جولائی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دے دیا تھا۔