پنجاب حکومت نے 21 ستمبر کو کاہنہ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے جلسے کے دوران ’سیکیورٹی وجوہات‘ کی وجہ سے بلاک کیے گئے رنگ روڈ انٹرچینج پر لاہور ہائی کورٹ کے جج کے اہل خانہ کے ساتھ مبینہ طور پر بدتمیزی کرنے پر دو سینئر پولیس افسران کے تبادلے اور ایک کو ملازمت سے معطل کر دیا ہے۔
ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ شام ساڑھے 6 بجے کے قریب گاؤں کمہان کے قریب کرنل (ریٹائرڈ) عارف محمود انٹرچینج پر پیش آیا، جسے پولیس نے سیکیورٹی مقاصد کے لیے بند کر دیا تھا کیونکہ اسی روز کاہنہ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا عوامی اجتماع منعقد کیا جا رہا تھا۔
جن پولیس افسران کو سزا کا سامنا کرنا پڑا ان میں سیکیورٹی ایس پی خالد محمود افضل، کاہنہ سرکل کے ڈی ایس پی فخر راجہ اور ملسم ٹاؤن کے ایس ایچ او ندیم کمبوہ شامل ہیں۔
اس پیشرفت سے باخبر ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ اہلکاروں کے خلاف کارروائی لاہور آرگنائزڈ کرائم یونٹ (او سی یو) کے ڈی آئی جی عمران کشور کی انکوائری کی روشنی میں شروع کی گئی۔
ان کا کہنا ہے کہ ڈی آئی جی نے تینوں پولیس افسران کو بلایا، پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی (PSCA) کے کیمروں کی ویڈیوز کا جائزہ لیا، اس مقام پر تعینات پولیس اہلکاروں کے بیانات اور حالات کے شواہد کا جائزہ لیا۔
انکوائری رپورٹ میں دو سینئر پولیس افسران کو ہٹانے اور ایس ایچ او کی معطلی کی تجویز پیش کی گئی تھی، جس میں انہیں بنیادی طور پر ہائی کورٹ کے جج کے اہل خانہ کے ساتھ بدتمیزی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔
اہلکار کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے جسٹس انور حسین کی سرکاری گاڑی کو، جس میں ان کا خاندان سفر کر رہا تھا، کو انٹرچینج پر روکا جسے کنٹینر سے روک دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم ٹاؤن کے ایس ایچ او، جو اس مقام پر ڈیوٹی پر تھے، نے ’سیکیورٹی وجوہات‘ کا حوالہ دیتے ہوئے جج کے اہل خانہ کو انٹرچینج سے داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔
اہلکار کا کہنا تھا کہ جج کے اہل خانہ نے شاہراہ سے رکاوٹ ہٹانے پر اصرار کیا کیونکہ انہیں لاہور قصور روڈ لینا تھا۔
جیسا کہ ایس ایچ او ڈٹا رہا، خاندان کے ایک فرد نے خود کو ہائی کورٹ کے جج کے بیٹے کے طور پر متعارف کرایا، لیکن پولیس اہلکار نے اسے واپس جانے کو کہا۔
دریں اثنا، اس معاملے پر دونوں فریقین میں گرما گرم الفاظ کا تبادلہ ہوا کیونکہ جج کے اہل خانہ نے عوامی سڑک کی ناکہ بندی کو قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔
جیسا کہ مبینہ طور پر ایس ایچ او نے کار میں سوار افراد کے ساتھ بدتمیزی کی، ان میں سے ایک نے موبائل فون پر ویڈیو بنائی اور جج کو پولیس کی جانب سے سڑک کی غیر مجاز ناکہ بندی کے بارے میں مطلع کیا۔
اہلکار نے بتایا کہ ڈی ایس پی فخر راجہ، جو وہاں بھی موجود تھے، نے اہل خانہ سے رابطہ کیا اور انہیں شائستگی سے بتایا کہ پولیس اہلکار محکمے کی ہدایات پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔
اس دوران ایس پی سیکیورٹی نے بھی صورتحال کو سنبھالنے کی کوشش کی جب کہ جج کے اہل خانہ کی جانب سے انہیں بتایا گیا کہ ایس ایچ او نے پہلے ان کے ساتھ ’بدتمیزی‘ کی اور قابل اعتراض زبان استعمال کی۔
جیسے ہی خاندان انٹر چینج سے واپس آیا، جج نے معاملہ پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر عثمان انور کے ساتھ اٹھایا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سینئر جج نے لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم سے بھی پولیس اہلکاروں کے رویے کی شکایت کی اور کہا کہ ان میں سے ایک نے ان کے بیٹے کو کالر سے پکڑ کر اس کا موبائل فون چھین لیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ شکایت کے بعد چیف جسٹس نے متعلقہ اعلیٰ حکام کو جج کے اہل خانہ کے ساتھ پولیس کی بدتمیزی کا نوٹس لینے کی ہدایت کی۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک ڈی آئی جی اور کچھ دیگر سینئر پولیس افسران بھی جج کی رہائش گاہ پر گئے تھے اور متعلقہ افسران کی جانب سے معافی مانگی تھی۔
اس کے بعد آئی جی نے معاملہ لاہور کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر بلال صدیق کامیانہ کو بھجوایا، جنہوں نے پولیس افسران کو سخت سیکیورٹی کی صورتحال کے دوران ’مسئلے کو سنبھالنے‘ کی مہارت نہ ہونے پر نصیحت کی۔
ان کی ہدایت پر، ڈی آئی جی او سی یو نے پھر انکوائری کی اور بنیادی طور پر ایس ایچ او ندیم کمبوہ کو ’ہائی کورٹ کے جج کے اہل خانہ کے ساتھ ناروا سلوک‘ کا ذمہ دار قرار دیا۔