افغانستان کی طالبان حکومت کو بین الاقوامی فورمز پر خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے باعث قانونی مشکلات کا سامنا بڑھتا جا رہا ہے۔ آسٹریلیا، کینیڈا، جرمنی اور نیدرلینڈز نے نیو یارک میں ایک مشترکہ اعلان جاری کیا ہے کہ وہ طالبان کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں قانونی کارروائی کا آغاز کریں گے۔
قانونی کارروائی کا پس منظر
آسٹریلیا کی وزیر خارجہ پینی وونگ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق کی توہین کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ طالبان ایک منظم انداز میں خواتین پر جبر کر رہے ہیں جو کہ بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی ہے۔
بین الاقوامی کنونشن کی خلاف ورزی
پینی وونگ نے وضاحت کی کہ یہ قانونی کارروائی جرمنی کی قیادت میں کی جائے گی، اور یہ ایک ”غیرمعمولی“ اقدام ہے۔ انہوں نے کہا کہ چاروں ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ افغانستان عالمی کنونشن کی خلاف ورزی کر رہا ہے، افغانستان اس کنونشن پر دستخط کر چکا ہے، لہٰذا اس کے موجودہ حکومتی عہدیداروں کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔
مذاکرات اور ثالثی
پینی وونگ نے افغانستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس عالمی کنونشن کے تحت بات چیت میں شامل ہو۔ عالمی کنونشن کے مطابق اگر مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں تو شامل فریقین تنازع کے حل کے لیے ثالثی کی درخواست کر سکتے ہیں۔ اگر چھ ماہ میں کوئی اتفاق رائے نہیں بنتا، تو پھر کوئی بھی فریق معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں لے جا سکتا ہے۔
طالبان کی پابندیاں
طالبان نے اگست 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اسلامی قوانین کی اپنی تشریح کے تحت خواتین اور لڑکیوں پر سخت پابندیاں عائد کی ہیں۔ اس کے نتیجے میں نیو یارک میں 20 سے زائد ممالک نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں ان چار ممالک کی قانونی کارروائی کی حمایت کی گئی ہے جو طالبان کو عالمی عدالت انصاف کے سامنے لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
عالمی عدالت انصاف کا کردار
عالمی عدالت انصاف کے فیصلے قانونی طور پر لاگو ہوتے ہیں لیکن عدالت کے پاس ان فیصلوں پر عمل درآمد کا کوئی خاص طریقہ کار نہیں ہے۔ اس کے باوجود یہ بین الاقوامی سطح پر ایک اہم قدم ہے جو طالبان حکومت کو خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف جوابدہ ٹھہرانے کی کوشش کر رہا ہے۔