دی پاکستان فارماسیوٹیکلز مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے پیر کو دواسازی میں مصںوعی ذہانت کے کردار کے حوالے سے ایک ورکشاپ کا اہتمام کیا۔ اس ورکشاپ کا عنوان تھا دواسازی کا مستقبل، بہتر دواسازی اور پرسنلائزڈ ادویہ میں مصنوعی ذہانت کا کردار۔
مقامی ہوٹل میں منعقدہ ورکشاپ کی صدارت سیمی کملوک نے کی جو پی ڈیبلو سی اکیڈمی (مشرقِ وسطیٰ) میں اے آئی اور ڈجیٹل کے سربراہ ہیں۔ وہ لِنکڈ اِن پر مصنوعی ذہانت کی نمایاں ترین آوازوں میں سے ہیں۔ اس ورکشاپ کا بنیادی مقصد یہ دیکھنا تھا کہ پاکستان کے فارما سیکٹر میں مصنوعی ذہانت سے کس حد تک کام لیا جاسکتا ہے۔
ورکشاپ میں فارما انڈسٹری کے اعلیٰ عہدیداروں نے شرکت کی۔ بزنس ریکارڈر سے گفتگو کرتے ہوئے سیمی کملوک نے کہا کہ دوسرے بہت سے شعبوں کی طرف فارما سیکٹر میں بھی مصنوعی ذہانت کے ذریعے حوصلہ افزا نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے 40 فیصد تک وقت بچایا جاسکتا ہے۔ فارما سیکٹر میں دستیاب ڈیٹا اور دیگر معلومات کی بنیاد پر بہتر کارکردگی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے بروقت فیصلے لازم ہیں۔ ہیتھ کیئر پروفیشنلز کے لیے بھی فارما سیکٹر کی عمدہ کارکردگی حوصل افزا ثابت ہوتی ہے۔
کملوک نے پاکستان کے فارما سیکٹر ڈیٹا شیئرنگ کی روایت کے طاقتور نہ ہونے کو بہتر کارکردگی کی راہ میں ایک بڑی دیوار سے تعبیر کیا۔ اس وقت پاکستان میں ڈیٹا شیئرنگ بہت کم ہے۔ اس کے نتیجے میں بروقت اور معیاری فیصلے بھی ممکن نہیں ہو پارہے۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت سے فارما سیکٹر کے مینوفیکچررز مشینوں کا وقت بھی گھٹاسکتے ہیں، سپلائی چین کو بہتر بنایا جاسکتا ہے، نئے چیلنجز کا بہتر طور پر مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آلات اور مشینری کی کارکردگی کو مصنوعی ذہانت کے ذریعے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
سیمی کملوک نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کو سیلز فار کاسٹنگ اور مینوفیکچرنگ آپریشنز کے لیے براہِ راست بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ قومی سطح پر متعلقہ ڈیٹا جمع کرکے اُسے معقول طریقے سے شیئر کرنا بھی لازم ہے۔ سرکاری ہیلتھ ریکارڈز سے مستقبل میں فیصلہ سازی آسان بنائی جاسکتی ہے۔
پی پی ایم اے کے سابق چیئرمین اور فارم ایوو کے مینیجنگ ڈائریکٹر ایم ہارون قاسم نے کہا کہ جدید ترین ٹیکنالوجیکل ٹرینڈز سے ہم آہنگ رہنا بہت اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی پی ایم اے کے پلیٹ فارم سے پروفیشنلز کو اے آئی سمیت جدید ترین ٹیکنالوجیز سے ہم آہنگ کرنے پر توجہ دی جاتی ہے۔ اس کا مقصد پروڈکشن زیادہ اور بہتر بنانا ہے۔ اس کے نتیجے میں مارکیٹنگ بھی بہتر ہوگی اور برآمدات بھی۔ مصنوعی ذہانت کی مدد سے دواؤں کا معیار بلند کیا جاسکتا ہے، سپلائی چین کو بہتر بنایا جاسکتا ہے اور مجموعی طور پر پورے فارما سیکٹر کی ملک گیر کارکردگی کو بہتر بنانے میں بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ یوں پاکستان کو گلوبل مارکیٹ کے لیے بھی اچھی طرح تیار کیا جاسکتا ہے۔
ہارون قاسم کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر مقابلہ اسی وقت ممکن ہے جب دوائیں بہتر بھی ہوں اور لاگت میں بھی کمی واقع ہو۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ فارما سیکٹر کی مدد کرے گاکہ وہ بڑے پیمانے برآمدات ممکن بنانے میں کامیاب ہو۔ آئی ٹی ٹی سیکٹر کو سہولت دی گئی کہ وہ اپنی آمدنی کا معقول حصہ رکھے۔ اگر یہی سہولت فارما سیکٹر کو بھی دی جائے تو وہ بھی بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔
ہارون قاسم کا کہنا تھ بھرپور توجہ اور محنت سے اگلے پانچ سال میں فاما سیکٹر کی برآمدات 2 سے 5 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت کی طرف سے مختلف سطحوں پر بھرپور معاونت کی ضرورت ہے۔ فارما سیکٹر کو ترجیح کا درجہ دینا ہوگا تاکہ وہ دوسرے ملکوں سے تجارتی تعلقات کا دائرہ وسیع کرنے کے قابل ہو۔ اس وقت ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک ہمیں برآمدات کی آمدنی کا صرف 15 فیصد اپنے پاس رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ فارما سیکٹر کو اپنی برآمدات کی آمدنی کا 35 فیصد رکھنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ اس کے نتیجے میں ہم عالمی مارکیٹ میں زیادہ آگے جاسکیں گے اور بہتر طور پر مسابقت کے قابل ہوسکیں گے۔
پی پی ایم اے کے سابق چیئرمین ڈاکٹر قیصر وحید نے بھی مسابقت کی صلاحیت بڑھانے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجیز سے کام لینے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈجیٹل انقلاب کو نہ اپنانے والے ادارے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ فارما سیکٹر کو بھی مصنوعی ذہانت، روبوٹکس اور ڈجیٹل ٹرانسفارمیشن کی راہ پر گامزن رہنا چاہیے تاکہ مسابقت کے قابل رہا جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا اے آئی اور نینو ٹیکنالوجی کی طرف جاچکی ہے۔ اس کے نتیجےھ میں دواؤں کا معیار بھی بلند ہوا ہے اور ڈلیوری بھی بہتر ہوئی ہے۔
فارم ایوو کے ڈپٹی سی ای او سید جمشید احمد نے کہا کہ پاکستان کے ہیلتھ کیئر سسٹم کا معیار بلند کرنے میں مصنوعی ذہانت کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔ دیہی علاقوں میں طبی سہولتوں کا معیار اور گراف بلند کیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دادو جیسے دور افتادہ ضلع میں کسی کو دل کا دورہ پڑے تو مصنوعی ذہانت کے ذریعے چیک اپ بھی آسان ہے اور مشاورت بھی۔ یوں بہت سی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔
سید جمشید احمد نے کہا کہ پاکستان میں اسپیشلائزڈ میڈیکل پروفیشنلز کی شدید کمی ہے۔ 25 کروڑ کی آبادی کے لیے صرف 200 سے 250 نیورو لوجسٹس ہیں۔ اے آئی کی مدد سے تشخیص اور دوا تجویز کرنے میں بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ یوں علاج آسان بنایا جاسکتا ہے۔
سیمی کملک نے ایک لِنکڈ اِن پوسٹ میں بتایا کہ کس طور مصنوعی ذہانت دواسازی کے شعبے کو تبدیل کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دواؤں کا معیار بلند کرنے کے ساتھ ساتھ سپلائی چین بھی بہتر بنائی جاسکتی ہے اور پرسنلائزڈ میڈیسن کا گراف بھی بلند کیا جاسکتا ہے۔ مصںوعی ذہانت مریضوں کی شناخت میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ نئی دواؤں کی تیاری اور علاج کا معیار بلند کرنے کے حوالے سے مصنوعی ذہانت بہت اہم ہے۔ کسی بھی مریض کے جینیٹک ریکارڈ کی بنیاد پر خصوصی دوا یا دواؤں کی تیاری میں بھی مصنوعی ذہانت بہت معاونت کرتی ہے۔
انہوں نے دواؤں کی آزمائش اور مریضوں کے ڈیٹا کلیکشن کے حوالے سے بھی مصنوعی ذہانت کے کردار کی توضیح کی۔ اس سے لاگت بھی گھٹتی ہے اور معیار بھی بلند ہوتا ہے۔ اس صورت میں خام مال کا ضیاع بھی اچھی طرح روکا جاسکتا ہے۔
سیمی کملوک مصنوعی ذہانت کے مثبت نتائج کے حوالے سے بہت پُرامید ہیں تاہم انہوں نے ممکنہ اخلاقی چیلنجز سے بھی خبردار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت ڈیٹا پرائیویسی اور الگوریتھمک جھکاؤ یا غیر جانب داری سے متعلق اہم سوال بھی کھڑے کرتی ہے۔ مریض کے اعتماد کو بحال رکھنے اور احساسِ ذمہ داری کو زندہ رکھنے کے لیے یہ یقینی بنانا لازم ہے کہ مصنوعی ذہانت کا استعمال اخلاقی اعتبار سے بالکل درست ہو۔