برطانوی نشریاتی ادارے نے مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال کے حوالے سے ایک دستاویزی فلم میں بتایا ہے کہ اس خطے نے کئی عشروں تک عسکریت پسندی جھیلی ہے اور نئی دہلی سے اس کے تعلقات انتہائی کشیدہ رہے ہیں۔
دس سال میں پہلی بار مقبوضہ کشمیر میں اسمبلی کے الیکشن ہو رہے ہیں۔ 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کیے جانے کے بعد یہ اسمبلی کے پہلے انتخابات ہیں۔ اس حوالے سے مقبوضہ وادی کے باشندوں کا ردِعمل ملا جلا رہا ہے۔ کچھ نے بائیکاٹ کیا ہے، کچھ نے ووٹ دیا ہے۔
دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کے الزام میں مقدمات کا سامنا کرنے اور جیل کاٹنے والے انجینیر عبدالرشید انتخابی سرگرمیوں کے لیے ضمانت پر رہائی پاکر اب سیاسی اعتبار سے فعال ہیں۔
انجینیر عبدالرشید کے سیاسی ایجنڈے میں ترقیاتی اقدامات، گورننس اور کشمیر کا مسئلہ حل کرنے سے متعلق امور کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ یہ ایجنڈا مقبوضہ وادی کے لوگوں کی خواہشات کا بہت حد تک عکاس ہے کیونکہ پانچ سال قبل آئینی حیثیت بدلے جانے پر اُن میں زیادہ احساسِ محرومی پایا جاتا ہے کیونکہ اُن کی نیم خود مختار حیثیت بھی داؤ پر لگ چکی ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کے انتخابات میں بے روزگاری، مہنگائی اور مقبوضہ وادی کے لوگوں کی شناخت اور خود مختاری کی بحالی بنیادی اِشو ہیں۔ پچھلے انتخابات کے دوران انتہائی پُرتشدد واقعات رونما ہوئے تھے۔ لوگوں نے پولنگ کا بڑے پیمانے پر بائیکاٹ کیا تھا۔
بھارتی فوج کے قبضے کے بعد 1990 کی دہائی سے اب تک مسلح مزاحمتی تحریک میں ہزاروں افراد کی جانیں جاچکی ہیں۔ اِن میں بھارتی قابض فوجیوں سے زیادہ تعداد سویلینز کی ہے۔
بھارتی حکومت کو مقبوضہ کشمیر میں بنیادی حقوق کی پامالی اور سیاسی مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن کے حوالے سے شدید تنقید اور الزامات کا سامنا رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ چند حالیہ برسوں میں بھارتی حکومت نے مخالفین کو زیادہ سختی سے کچلنے کا چلن اپنایا ہے۔ لوک سبھا کے حالیہ انتخابات میں ووٹنگ کو عوام کی طرف سے اِن معاملات پر ردِعمل کے طور پر دیکھا گیا تھا۔
بی بی سی کی دستاویزی فلم کے مواد کے مطابق بھارت کے وزیرِاعظم نریندر مودی نئے کشمیر کا راگ الاپ رہے ہیں جبکہ مقبوضہ کشمیر کے باشندے اس پر شدید عدمِ اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پُرانے کشمیر ہی کو ترجیح دے رہے ہیں۔
انتہائی بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ریاستی اسمبلی کے انتخابات کے باوجود اس خطے میں حکمرانی سے متعلق بیشتر معاملات مرکزی حکومت کے ہاتھ میں ہیں اور وہ اس خطے کو مرکز کے زیرِانتظام علاقے کی حیثیت سے دیکھنے کو ترجیح دیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں تبدیلی کے حوالے سے شکوک و شبہات اور تحفظات میں اضافہ ہو رہا ہے۔