سندھ ہائیکورٹ کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 کے خلاف درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا۔
گزشتہ روز سندھ ہائیکورٹ نے بھی پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کے خلاف درخواست قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
جسٹس یوسف نے ریمارکس دیے تھے کہ درخواست پر فیصلہ آج ہی جاری کیا جائے گا تاہم فیصلہ جاری نہیں کیا گیا۔
ابراہیم سیف الدین ایڈووکیٹ نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ترمیمی آرڈریننس اسمبلی میں پیش ہی نہیں کیا گیا ہے اور ایکٹ میں ترمیم عدلیہ پر براہِ راست حملہ ہے۔
اس تناظر میں لاہور ہائیکورٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے شہری منیر احمد کی درخواست پر سماعت کی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نصر احمد عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ڈپٹی اٹارنی جنرل اسد باوجود اور اسسٹںنٹ اٹارنی جنرل اعجاز بسر بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ درخواست گزار کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے دلائل دیے۔
دوران سماعت چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ گراؤنڈز بتائیں آرڈنینس کیوں غیر قانونی ہے؟ جس پر وکیل درخواست گزار نے جواب دیا کہ کوئی ایمرجنسی کی صورتحال نہیں تھی جس کے باعث یہ آرڈنینس جاری کیا گیا۔
وکیل درخواست گزار نے دلائل دیے کہ اسمبلی بھی موجود تھی مگر اس کے باوجود آرڈنینس لایا گیا، آرڈنینس آنے کے بعد نئی کمیٹی تشکیل دی گی، پہلے بھی پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ لایا گیا، پہلے تمام اختیارات چیف جسٹس کے پاس ہوتے تھے۔
اس موقع پر وفاقی حکومت کے وکیل نے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈینینس کے خلاف درخواست پر اعتراض اٹھاتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ آرڈیننس سپریم کورٹ اور سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج ہوچکا ہے، سندھ ہائیکورٹ نے فیصلہ بھی محفوظ کر رکھا ہے۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کیخلاف دائر درخواست سماعت کیلئے مقرر کرنے کا حکم
وکیل وفاقی حکومت نے دلائل دیے کہ یہ درخواست اسلام آباد کے دائرہ اختیار میں آنے والی عدالت میں دائر ہوسکتی ہے، سپریم کورٹ ملکی کی سب سے بڑی عدالت ہے، اس درخواست پر سماعت کرنے کا لاہور ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار نہیں بنتا۔
وفاقی حکومت کے وکیل نے استدعا کی کہ عدالت اس درخواست کو مسترد کرے۔
بعدازاں لاہور ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کے خلاف درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا۔
واضح رہے کہ 23 ستمبر کو لاہور ہائیکورٹ نے رجسٹرار آفس کو پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 کے خلاف درخواست پر اعتراض ختم اور رجسٹرار آفس کو درخواست سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کر دی تھی۔
رجسٹرار آفس نے شہری منیر احمد کی درخواست پر اعتراض عائد کیا تھا کہ یہ درخواست لاہور ہائیکورٹ میں نہیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی جاسکتی ہے۔
یاد رہے کہ صدر مملکت آصف زرداری کے دستخط بعد سپریم کورٹ ترمیمی پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 نافذ ہو گیا تھا۔
قبل ازیں وزیر اعظم شہباز شریف اور وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ ترمیمی پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 منظور کیا تھا۔
اطلاعات ونشریات کے وزیر عطا اﷲ تارڑ نے کہا کہ مفاد عامہ اور عدالتی عمل کی شفافیت کے فروغ کے لیے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈنینس 2024 نافذ کردیا گیا۔
ٹی وی پر نشر گفتگو میں انہوں نے کہا کہ آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کے تحت کسی مقدمے میں عدالت عظمی کی جانب سے سنائے گئے فیصلے پراپیل کا حق بھی دیا گیا ہے ۔
اس آرڈیننس سے چیف جسٹس کا سپریم کورٹ کے مقدمات مقرر کرنے کا دائرہ اختیار بڑھ جائے گا۔
آرڈیننس کے مطابق چیف جسٹس آٖف پاکستان، سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج اور چیف جسٹس کے نامزد جج پر مشتمل کمیٹی کیس مقرر کرے گی، اس سے قبل چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججوں کا تین رکنی بینچ مقدمات مقرر کرتا تھا۔
آرڈیننس کے مطابق بینچ عوامی اہمیت اور بنیادی انسانی حقوق کو مدِنظر رکھتے ہوئے مقدمات کو دیکھے گا، ہر کیس کو اس کی باری پر سنا جائے گا ورنہ وجہ بتائی جائے گی۔
ترمیمی آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ ہر کیس اور اپیل کو ریکارڈ کیا جائے گا اور ٹرانسکرپٹ تیار کیا جائے گا، تمام ریکارڈنگ اور ٹرانسکرپٹ عوام کے لیے دستیاب ہو گا۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس: پاکستان بار کا شدید تحفظات کا اظہار
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کمیٹی مقدمات مقرر کرے گی۔ کمیٹی چیف جسٹس، سینئر ترین جج اور چیف جسٹس کے نامزد جج پر مشتمل ہوگی۔
آرڈیننس میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے سیکشن 3 میں ترمیم شامل ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ میں سیکشن 7 اے اور7 بی کو شامل کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس 2024 کی وفاقی کابینہ سے منظوری کا امکان
آرڈیننس میں موجود ہے کہ سماعت سے قبل مفاد عامہ کی وجوہات دینا ہوں گی، سیکشن 7 اے کے تحت ایسے مقدمات جو پہلے دائر ہونگے انہیں پہلے سنا جائے گا، اگر کوئی عدالتی بینچ اپنی ٹرن کے بر خلاف کیس سنے گا تو وجوہات دینا ہونگی۔