حکومتی اتحاد اور جمیعت علماء اسلام (ف) کے درمیان آئینی ترامیم پر مشاورتی عمل جاری ہے، حکومت مولانا فضل الرحمان کو منانے کی سر توڑ کوششیں کر رہی ہے اور امکان ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے نئے اجلاسوں میں آئینی ترامیم منظور کرالی جائیں گی۔
پیپلز پارٹی نے جے یو آئی کو آئینی ترامیم کا مشترکہ ڈرافٹ پیش کرنے کی آفر کر رکھی ہے، بلاول ڈٹے ہوئے ہیں کہ آئینی ترامیم کے زریعے آئینی عدالت کا قیام ضرور کیا جائے گا۔ بلاول کہہ چکلے ہیں کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے مشاورت کامیاب نہیں ہوتی تو بھی نمبرز پورے کرنے کی کوشش کریں گے۔
ایسے میں ایک نئی پیشرفت ہوئی ہے، ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی اور سینیٹ اجلاس اکتوبر کے پہلے ہفتے میں طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس میں 26ویں آئینی ترامیم منظوری کیلئے پیش کی جائیں گی۔
ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی اور سینیٹ میں آئینی ترامیم کیلئے متفقہ ڈرافت منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا، سیاسی جماعتوں میں مکمل ہم آہنگی اور اتفاق رائے کے بعد ترامیم سامنے لائی جائیں گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس بلانے کیلئے سے رائے مانگ لی ہے، لیگل ونگ نے اکتوبر کے شروع میں دونوں ایوانوں کے اجلاس بلانے کی رائے دی ہے۔
حکومتی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے نئے اجلاسوں میں آئینی ترامیم منظور کرالی جائیں گی۔
خیال رہے کہ حکومتی حلقوں نے دونوں ایوانوں میں دوتہائی حمایت کے حصول کا دعویٰ کر رکھا ہے اور بیرون ملک جانے والے حکومتی ارکان کو دو اکتوبر تک واپسی کی ہدایت کی ہے۔
آئینی ترامیم کیلئے حکومتی اور اپوزیشن وفود کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقاتیں تواتر سے جاری ہیں۔
آئین میں سب سے خطرناک ترامیم کونسی؟ مسودہ منظر عام پر آنے کے بعد وکلا کے خدشات میں اضافہ
یہاں تک کہ یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ مولانا فضل الرحمان پر آئینی ترامیم کی منظوری کیلئے غیرملکی دباؤ ہے، تاہم، جے یو آئی کی جانب سے اس دعوے کو مسترد کردیا گیا۔
جے یو آئی کا کہنا ہے کہ ہم کسی ایسی ترمیم کا حصہ نہیں بنیں گے جو بنیادی حقوق کے منافی ہو۔