پاکستان سمیت دنیا بھر میں اینٹی بائیوٹک ایمرجنسی نافذ ہوگئی ہے جس کا شکار خاص طور پر پاکستانی بچے ہو رہے ہیں۔
اینٹی بائیوٹک لوگوں کو تجویز کی جانے والی سب سے عام دوا سمجھی جاتی ہے لیکن اب یہ سمجھنا ضروری ہوگیا ہے کہ اب ٹائیفائیڈ جیسی بیماری کا علاج بھی اینٹی بائیوٹکس ادویات کے ذریعے بھی مشکل ہوگیا ہے۔
بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلزم کے اشتراک سے شائع کی گئی مصباح خان کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2016 میں ’ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ‘ سامنے آیا، ملک میں ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ کے 15 ہزار سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جب کہ جنوبی ایشیا کے ملکوں میں پاکستان میں ٹائیفائیڈ کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق اینٹی بائیوٹکس کے کثیر استعمال سے بیکٹیریا کی اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت بڑھنے لگی ہے۔
بچوں کی مہلک بیماری کی دوا کی قیمت ایک ارب روپے سے بھی اوپر جا پہنچ گئی
دی گارڈینز کی رپورٹ کے مطابق پورے جنوبی ایشیا کے اندر پاکستان میں ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ کی شرح سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔ ملک بھر میں ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ کے 15 ہزار سے زائد کیسز باضابطہ طور پر رپورٹ ہوئے ہیں۔
پاکستان نے 2019 سے اب تک 30 ملین سے زائد بچوں کو ٹائیفائیڈ سے بچاؤ کے ٹیکے لگائے ہیں، لیکن یہ کوششیں زیادہ تر ملک کے جنوبی حصے پر مرکوز ہیں جہاں یہ ٹائیفائیڈ پہلی بار سامنے آیا تھا۔