جسٹس منصور علی شاہ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے اجلاس میں عدم شرکت کے بعد کمیٹی کو خط لکھ دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ جب تک فل کورٹ آرڈیننس کا جائزہ نہ لے میں کمیٹی میں نہیں بیٹھ سکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں لکھا کہ آرڈیننس آنے کے بعد بھی سابقہ کمیٹی کام جاری رکھ سکتی تھی، آرڈیننس کمیٹی کی تشکیل نو لازمی نہیں قرار دیتا، آرڈیننس آنے کے گھنٹوں بعد ہی کمیٹی کی تشکیل نو کر دی گئی، اپنی مرضی کا رکن شامل کرنا غیرجمہوری رویہ اور ون مین شو ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ کوئی وجہ نہیں بتائی گئی کہ جسٹس منیب اختر کو کیوں ہٹایا گیا۔
آرٹیکل 63 اے نظر ثانی اور آڈیو لیک کیس سماعت کیلئے مقرر، 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل.
خط میں کہا گیا کہ یہ نہیں بتایا گیا جسٹس منیب کے بعد والے سینئر جج کو بھی کیوں نظرانداز کیا گیا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کمیٹی میں واپسی کی تین شرائط رکھ دیں اور خط میں کہا کہ جب تک فل کورٹ اس آرڈیننس کی آئینی حیثیت کا جائزہ نہیں لیتی کمیٹی میں نہیں بیٹھوں گا، جب تک فل کورٹ آرڈیننس کے ذریعے ترامیم پر عملدرآمد کا فیصلہ نہیں کرتی کمیٹی میں نہیں بیٹھوں گا، پھر جب تک چیف جسٹس سابقہ کمیٹی بحال کرتے ہوئے جسٹس منیب اختر کو شامل نہیں کرتے کمیٹی میں نہیں بیٹھوں گا۔
خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ صدارتی آرڈیننس پرسپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ بنایا جائے یا انتظامی سائیڈ پرفل کورٹ اجلاس بلایا جائے۔