بھارت کی سپریم کورٹ نے بچوں کی نازیبا تصویروں اور وڈیوز سے متعلق ایک کیس میں نچلی عدالت کے فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے منسوخ کرنے پر مدراس ہائی کورٹ کو سرزنش کی ہے۔
بھارت کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس ڈی وائے چندر چُوڑ اور جسٹس جے بی پردی والا پر مشتمل بینچ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ مدراس ہائی کورٹ کا فیصلہ بالکل غلط ہے جسے تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
ٹرائل کورٹ نے تامل ناڈو کے ایک شخص کو بچوں کی نازیبا تصویروں اور ویڈیوز دیکھنے اور محفوظ کرنے کے کیس میں جو سزا سنائی تھی وہ بالکل درست تھی۔
چیف جسٹس آف انڈیا نے ریمارکس دیے کہ خصوصی قانون (POCSO ACT) کے تحت بچوں کی اخلاق سوز تصویریں اور ویڈیوز بنانا، ریلیز یا پبلش کرنا، ڈاؤن لوڈ کرنا اور محفوظ رکھنا صریحاً جرم ہے اور اِس جرم کی پاداش میں سزا بھی سنائی جاسکتی ہے۔
مدراس ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ ٹرائل کورٹ نے بچوں کی نازیبا تصویروں اور ویڈیوز دیکھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے پر جو سزا سنائی ہے وہ درست نہیں کیونکہ گھر کی چار دیواری یا تنہائی میں انٹرنیٹ سے کوئی مواد دیکھنے پر POCSO ACT کا اطلاق نہیں ہوتا۔
واضح رہے کہ بھارت میں آج کل بچوں سے متعلق نازیبا مواد انٹرنیٹ پر غیر معمولی رفتار سے مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ سوال صرف دیکھنے کا نہیں بلکہ ڈاؤن لوڈنگ اور شیئرنگ کا بھی ہے۔ یہ رجحان اب اس قدر پنپ چکا ہے کہ سماجی امور کے ماہرین مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو خبردار کر رہے ہیں کہ اگر اس حوالے سے سخت تر اقدامات نہ کیے گئے تو معاشرہ مکمل تباہی کی طرف جائے گا۔