اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ کے آرٹیکل میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کو اسرائیل کا حمایتی قرار دیا گیا ہے اور پاکستان کی موجودہ قیادت کو تبدیل کرنے کی بات کی گئی ہے۔
یروشلم پوسٹ سے پہلے ایک اور اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل نے عمران خان کو اسرائیل اور پاکستان کے درمیان تعلقات کیلئے اہم قرار دیا تھا۔
یروشلم پوسٹ کے آرٹیکل میں لکھا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان اسرائیل مخالف بیان دینے کے باوجود اسرائیل سے بہتر تعلقات کے اشارے دیتے رہے، عمران خان اسرائیل کے لیے ہم خیال سیاستدان ہیں اور بانی پی ٹی آئی کی انتخابات میں کامیابی پاک اسرائیل تعلقات کا ازسرنو جائزہ لینے کا موقع ہے۔
اسرائیلی اخبار کے آرٹیکل میں کہا گیا کہ اسرائیل دوست خارجہ پالیسی کے اسٹریٹجک فوائد ہیں لیکن پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے مزاحمت کا سامنا ہے، فوجی اسٹیبلشمنٹ نے طویل عرصہ اسرائیل کےساتھ تعلقات کومعمول پر آنے سے روکا اس لئے اسرائیل سے تعلقات کے لیے پاکستان کی موجودہ سیاسی قیادت کو بدلنا ہوگا کیونکہ عمران خان اسرائیل کے حمایتی اور اسٹیبلشمنٹ و سیاسی قیادت کے مخالف ہیں۔
آرٹیکل کے مطابق اسرائیل سے تعلقات میں عمران خان کا کردار کلیدی ہوگا کیونکہ وہ عوامی رائے اور فوجی پالیسی تبدیل کرنے میں کردار اداکر سکتے ہیں جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی پاک اسرائیل تعلقات کی بحالی تیز کر سکتی ہے اور ٹرمپ انتظامیہ سفارتی، معاشی فوائد سے پاکستان جیسے ممالک کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہے۔
آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے پاکستان کو اہم اقتصادی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں، اسرائیل سے تعلقات سے پاکستان کو زراعت، سائبر سیکیورٹی، دفاع اور مالی سرمایہ کاری جیسے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔
پاکستان اسرائیل تعلقات میں عمران خان کا اہم کردار ہوسکتا ہے- اسرائیلی اخبار میں مضمون
یروشلم پوسٹ میں یہ مضمون ہیری ریچر نے لکھا ہے جو بنیادی طور پر ابراہم اکارڈز کی پہلی سالگرہ کے موقع پر تحریر کیا گیا ہے۔ ابراہم اکاڈز اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان امریکا کی کوششوں سے ہونے والا معاہدہ ہے۔
اسرائیل کے مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات قائم ہونے کے امکانات پر بات کرتے ہوئے مضمون نگار نے لکھا کہ پاکستان کا معاملہ خاصہ دلچسپ ہے اگرچہ پاکستان کی پالیسی فلسطینیوں کی حمایت میں ہے لیکن اس کے باوجود حالیہ برسوں میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی اشارے ملے ہیں۔
اخبار نے لکھا کہ عمران خان نے اپنی اسرائیل مخالف بیان بازی کے باوجود اس بات کا اشارہ دیا کہ پاکستان کو اسرائیل کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے، یہ اس صورتحال میں خاص طور پر اہم تھا جب باقی مسلم دنیا اپنے مفادات میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنا شروع ہو گئی تھی۔
اخبار نے لکھا کہ تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں 93 نشستیں ہیں اور وہ اثرورسوخ رکھتی ہے کہ دیگر ہم خیال رہنماؤں کے ساتھ مل کر اسرائیل کے حوالے سے پالیسی پر نظر ثانی کرا سکے بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کو اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔
اخبار نے لکھا کہ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے بدلے میں پاکستان کو خاطر خواہ اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے جن میں زراعت کو جدید بنانے کے لیے تکنیکی مدد اور سائبر سکیورٹی اور دفاع کے معاملات میں امداد شامل ہے جبکہ پاکستان کو مالی مدد بھی ملے گی۔
اخبار نے کہا کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان جب تعلقات قائم ہوئے تو دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں 124 فیصد اضافہ ہوا۔
عمران خان آج بھی غزہ کے قصائیوں کے ساتھ کھڑا ہے، وزیر دفاع
یروشلم پوسٹ نے لکھا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں رکاوٹ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے جو اس کی حمایت نہیں کر رہی اور یہ چیز بدلنا ہوگی۔ اخبار نے کہا کہ اگے بڑھنے کے لیے قیادت میں تبدیلی ضروری ہے اور عمران خان جیسی شخصیات رائے عامہ اور فوج کی پالیسی دونوں کو تبدیل کر سکتی ہیں۔
مضمون بھی یہ بھی کہا گیا کہ نومبر میں ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدارتی الیکشن جیتنے کے بعد یہ عمل تیز ہو سکتا ہے۔