ن لیگ کے مرکزی رہنما خرم دستگیر نے کہا ہے کہ تشدد پر اُکسانے والی زبان کا استعمال پی ٹی آئی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔ یہ طرزِ فکر و عمل سابق حکمراں جماعت کو بالآخر پھندے میں پھنسادے گی۔
جمعہ کو آج نیوز کے پروگرام روبرو میں میزبان شوکت پراچہ سے گفتگو کرتے ہوئے خرم دستگیر نے کہا میرا خیال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو ریلی نکالنے کی اجازت دی جانی چاہیے کیونکہ اس صورت میں وہ لوگ تشدد پر اُکسانے والی زبان استعمال کرکے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار لیں گے۔
خرم دستگیر نے کہا کہ پی ٹی آئی نے کبھی مارشل لا نہیں دیکھا۔ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں شہباز شریف کی بیٹی کے گھر پر بھی پولیس نے چھاپہ مارا تھا۔ آئین میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ اظہارِ رائے کی آزادی کو لوگوں کو تشدد پر اُکسانے کے لیے بھی بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔
پی ٹی آئی کے قانون ساز شعیب شاہین اور پیپلز پارٹی کے رہنما مولا بخش چانڈیو نے بھی روبرو میں شرکت کی اور میزبان شوکت پراچہ کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
آئینی ترمیم کے مسودے کے حوالے سے جمعیتِ علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے اعتراضات کے بارے میں پوچھے جانے پر خرم دستگیر نے کہا اِس سے کم از کم یہ ضرورت ثابت ہوتا ہے کہ ملک میں جمہوریت پائی جاتی ہے۔
پی ٹی آئی کے دورِ حکومت کے حوالے سے خرم دستگیر نے کہا کہ اُس دور میں پارلیمنٹ کے کوریڈور میں مارشل اسٹک ہوا کرتی تھی۔ ہم نے وہ دیکھی تھی۔ میں نے مشاہدہ کیا کہ جب ضرورت ہوتی تھی تب بل کس طور پیش کیے جاتے تھے۔ قانون سازی کی راہ مسدود کیے جانے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ میں موجود جماعتیں انٹر پلے کر رہی ہیں۔
عمر ایوب کی طرف سے مارشل لا کا حوالہ دیے جانے سے متعلق پوچھے جانے پر شعیب شاہین نے کہا کہ جس طور آئینی ترمیم منظور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ ڈکٹیٹر شپ اور مارشل لا سے بھی بدتر ہے۔ بنیادی حقوق سلب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے آئینی ترمی کی راہ مسدود کرنے کا کریڈٹ مولانا فضل الرحمٰن کو دیا۔
مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ انہوں نے مارشل لا صرف سنا ہے، دیکھا نہیں ہے۔ وہ پیچھے ہٹ گئے۔ مارشل لا لگا تو ان کی سات نسلیں سیاست سے انکار کردیں گی۔
شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ میں دو مارشل لاز کا گواہ اور شکار ہوں۔ جو حملہ وہ کر رہے تھے وہ ڈکٹیٹر، مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے بعد بدترین تھا کیونکہ ڈرافٹ آرٹیکل 8 کو ختم کرنا چاہتا تھا اور اس کے نتیجے میں فوجی ٹرائل میں سویلین ٹرائل کا اعلان اور بنیادی حق کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ یہ خوفناک حملہ تھا۔ کریڈٹ مولانا کو جاتا ہے۔ یہ پارلیمنٹ جو کہتی ہے کہ جمہوری ہے، مجھے افسوس ہے کہ اسی نے جمہوریت کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی۔
خرم دستگیر نے کہا کہ آئینی ترمیم کے مقاصد سنگین ہیں اور 18 سال سے چل رہے ہیں۔ ہمیں آئینی عدالتوں کی ضرورت ہے کیونکہ سپریم کورٹ میں 60,000 مقدمات زیر التوا ہیں جن میں 33 ہزار سول تنازعات، 24-25 ہزار فوجداری، اور 2-3 ہزار آئینی معاملات شامل ہیں۔