پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی سے قبل نہیں روکا جاسکتا۔
بیرسٹر علی ظفر سے آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں سوال ہوا کہ کیا مجوزہ آئینی ترامیم کو پارلیمنٹ میں قانون سازی سے قبل عدالتوں میں لے جا کر روکا جاسکتا ہے؟ جس پر جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میری نظر میں آپ پارلیمنٹ میں قانون سازی کو قبل ازوقت نہیں روک سکتے، کیونکہ اگر یہ کریں گے تو ہمارا پورا پارلیمانی نظام ختم ہوجائے گا‘۔
آئینی ترامیم کیخلاف وکلا تحریک کے آغاز کا اعلان، ’سیلاب باہر نکلے گا تو کوئی طاقت نہیں روک سکے گی‘
اس کے باوجود سینئیر وکلا کی جانب سے مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف عدالتوں میں درخواستوں پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’آپ کسی کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ ٹرائی نہ کریں‘۔
انہوں نے کہا کہ حال ہی میں سپریم کورٹ نے ایک قانون کے بارے میں اسٹے آرڈر جاری کیا تھا کہ پارلیمنٹ یہ قانون ابھی نہ پاس کرے، وہ قانون بل کی شکل میں ہی تھا پاس نہیں ہوا تھا، اس لئے ہمارے پاس سپریم کورٹ کے حکم کی شکل میں مثال تو موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’عدالت پہلے سے ہی اگر روک دے کسی قانون کو تو پھر وہ ذرا مشکل ہوجائے گا کہ نظام چل سکے جمہوریت کا‘۔
بیرسٹر علی ظفر نے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے چیف الیکشن کمشنر کو لکھے گئے خط پر کہا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ک وہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرے، اسپیکر اگر کہتا ہے کہ آپ فیصلہ اس قانون کے مطابق کریں تو الیکشن کمشنر اس کے پابند نہیں ہیں، الیکشن کمشنر آئین پاکستان کے آرٹیکل 175 کے مطابق سپریم کورٹ کے حکم کا پابند ہے، ’اگر سپریم کورٹ آف پاکستان کوئی آرڈر دے گا تو چاہے وہ اچھا لگے یا برا لگے، غلط ہو صحیح ہو، ہر انسٹی ٹیوشن (ادارے) اس پر پابند ہے کہ اس پر عملدرآماد کرے اور اس کے کام کرے‘۔