Aaj Logo

شائع 19 ستمبر 2024 04:27pm

’مجوزہ آئینی ترمیم کے مسودے کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا‘، بار کونسل کی عدالتی درخواست پر اعتراض عائد

ایک طرف سپریم کورٹ میں حکومتی مجوزہ ترمیمی پیکج کے خلاف درخواستیں دائر ہونے کا سلسلہ جاری ہے، تو دوسری جانب بار کونسل کے چھ ممبران کی جانب سے مجوزہ آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کئے جانے کی درخواست پر رجسٹرار آفس نے اعتراضات عاٸد کر دٸیے ہیں۔

رجسٹرار آفس نے بار کونسل کے چھ ممبران کی درخواست پر آٹھ اعتراضات عائد کیے، جن میں کہا گیا ہے کہ مجوزہ آئینی ترمیم کے مسودے کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

رجسٹرار آفس نے اعتراض میں کہا کہ درخواست میں مفروضوں پر مبنی سوالات اٹھائے گئے ہیں، پارلیمنٹ کے اراکین کے پاس قانون پاس کرنے کا اختیار ہے مگر درخواست میں انہیں فریق نہیں بنایا گیا۔

26 اکتوبر کو سینیئر ترین جج چیف جسٹس بنیں گے، ریٹائرمنٹ عمر میں توسیع پیکج کا حصہ نہیں، وزیر قانون

اعتراض میں کہا گیا کہ درخواست میں وفاق، صوبوں اور صدر مملکت کو فریق بنایا گیا جو پارلیمان کے رکن نہیں ہیں۔

اعتراضات میں کہا گیا کہ آئین کے تحت مقننہ کو حاصل قانون سازی کے اختیار کو قانون بننے سے پہلے محدود نہیں کیا جا سکتا۔

درخواست پر یہ بھی اعتراض عائد کیا گیا کہ قانون کے تحت وکلاء کو پارٹی نہیں بننا چاہیے۔

خیال رہے کہ 16 ستمبر کو آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت عابد زبیری، شفقت محمود، شہاب سرکی، اشتیاق احمد خان، منیرکاکڑ اور دیگر کی جانب سے سپریم کورٹ میں مجوزہ آئینی ترامیم کو کالعدم قرار دینے کی درخواست دائر کی گئی تھی۔

درخواست میں وفاق، چاروں صوبوں، قومی اسمبلی، سینیٹ اور دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ مجوزہ آئینی ترامیم کو غیر آئینی قرار دیا جائے، مجوزہ آئینی ترامیم کو اختیارات کی تقسیم اورعدلیہ کی آزادی کے خلاف قرار دیا جائے اور وفاقی حکومت کو آئینی ترامیم سے روکا جائے۔

آئینی پیکج میں وکلا کی رائے شامل ہوگی، بارز کے علاوہ کسی کو ہڑتال کی اجازت نہیں، سپریم کورٹ بار

درخواست میں کہا گیا تھا کہ مجوزہ آئینی ترامیم کے بل کو پیش کرنے کے عمل کو بھی روکا جائے، پارلیمنٹ اگر آئینی ترامیم کرلے تو صدرمملکت کو دستخط کرنے سے روکا جائے اور مجوزہ آئینی ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ عدلیہ کی آزادی، اختیارات اور عدالتی امور کو مقدس قرار دیا جائے، پارلیمنٹ عدلیہ کے اختیار کو واپس یا عدالتی اختیارات میں ٹمپرنگ نہیں کرسکتی۔

درخواست گزاروں کا دعویٰ ہے کہ مجوزہ بل میں آئین میں 40 سے زائد ترامیم شامل ہیں، جن میں ایک وفاقی آئینی عدالت کا قیام، آئین کے آرٹیکل 175-اے سمیت دیگر ترامیم، سپریم کورٹ اور پاکستان کی ہائی کورٹس کے اختیارات کو ایگزیکٹو کو منتقل کرنا شامل ہے۔ اس کے علاوہ، آئین کے آرٹیکلز 17 اور 63-اے میں بھی ترامیم کی گئی ہیں، جو پارلیمنٹ کے ارکان کو انحراف کی بنیاد پر نااہل کرنے سے متعلق ہیں۔ یہ ترامیم سیاسی جماعتوں اور ووٹرز کو منحرف ارکان کے خلاف کارروائی کرنے کے حق سے محروم کردیں گی۔

Read Comments