Aaj Logo

اپ ڈیٹ 19 ستمبر 2024 07:34pm

مخصوص نشستیں ترمیم شدہ ایکٹ کے تحت ہی الاٹ ہوسکتی ہیں، اسپیکر کا الیکشن کمیشن کو خط

مخصوص نشستوں کے معاملے پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی نے الیکشن کمیشن سے رجوع کر لیا ہے، جبکہ اسپیکر قومی اسمبلی نے بھی چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ دیا ہے۔

الیکشن کمیشن میں درخواست محسن ایوب اور آمنہ شیخ کی جانب سے دی گئی، جس میں ن لیگ کے ارکان اسمبلی نے مؤقف اپنایا کہ سیاسی جماعت نے مخصوص نشستوں کی فہرست نہیں دی وہ مخصوص سیٹوں کی اہل نہیں۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ جن امیداروں نے پارٹی وابستگی سرٹیفکیٹ جمع نہیں کرایا انہیں ڈکلیئرڈ کیا جائے، سیاسی جماعت میں جانے والے آزاد ارکان دوبارہ پارٹی تبدیل نہیں کر سکتے۔

ن لیگ کے ارکان نے درخواست میں مزید کہا کہ پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر دی ہے، پارلیمنٹ نے ترامیم کا اطلاق ماضی سے مؤثر قرار دیا ہے، ترمیم کے مطابق ایک مرتبہ وابستگی کا جمع سرٹیفکیٹ تبدیل نہیں ہو سکتا، الیکشن ایکٹ کے مطابق فہرست نہ دینے والی جماعت مخصوص نشتوں کی اہل نہیں، ترامیم کے مطابق ایک مرتبہ وابستگی کا جمع سرٹیفکیٹ تبدیل نہیں ہو سکتا۔

اسپیکرز کے سکندر سلطان راجہ کے نام خطوط

دوسری جانب اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے نام خط لکھا ہے، جس میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ کی خود مختاری قائم رہتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کی جائیں، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو ہدایت دی ہے۔

خط میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے ہدایت کی ہے کہ آزاد اراکین کسی اور پارٹی میں شمولیت کی، وہ آزاد اراکین جو ایک سیاسی جماعت کا حصہ بن گئے انہیں پارٹی تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، ایکٹ جن آزاد اراکین نے پارٹی سرٹیفکیٹ جمع نہیں کرایا وہ آزاد تصور ہوں گے، ایکٹ پرعملدرآمد کیے بغیرالیکشن کمیشن مخصوص نشستوں کا فیصلہ نہیں کرسکتا۔

خط میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ماضی کے ایکٹ کے تحت تھا جس کا اطلاق نہیں ہوتا، پارلیمنٹ کے منظور کردہ ایکٹ صدر کی مںظوری کے بعد قانون بن گیا ہے، پارلیمانی نظام کی سالمیت اور آزادی کو برقرار رکھنا ضروری ہے، الیکشن کمیشن پارلیمنٹ اور جمہوری اصولوں کی پاسداری یقینی بنائے۔

دوسری طرف اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے بھی الیکشن کمیشن کو خط لکھ دیا۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی نے خط میں کہا ہے کہ ایکٹ پرعملدرآمد کیے بغیرالیکشن کمیشن مخصوص نشستوں کا فیصلہ نہیں کرسکتا، آزاد اراکین جو ایک سیاسی جماعت کا حصہ بن گئے انہیں پارٹی تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اگر آزاد اراکین نے پارٹی سرٹیفکیٹ جمع نہیں کرایا وہ آزاد تصورہونگے۔

محمد احمد خان نے لکھا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو ہدایت دی ہے ، سپریم کورٹ نے ہدایت کی ہے کہ آزاد اراکین کسی اور پارٹی میں شمولیت کی ، سپریم کورٹ کا فیصلہ ماضی کے ایکٹ کے تحت تھا جس کا اطلاق نہیں ہوتا، پارلیمنٹ کے منظور کردہ ایکٹ صدر کی مںظوری کے بعد قانون بن گیا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ترمیمی ایکٹ اورپارلیمانی بالادستی کو یقینی بنایا جائے پارلیمانی خودمختاری کے اصولوں کی بالادستی کیلئے اہم معاملہ ہے، اداروں میں عوامی اعتماد کویقینی بنانا ضروری عمل ہے، پارلیمان کی خودمختاری کیخلاف کوئی بھی قدم جمہوریت کیلئے نقصان دہ ہے۔

سپریم کورٹ کی آرٹیکل 63 اے کی تشریح آئین دوبارہ لکھنے کے مترادف ہے، وزیر اطلاعات

اس حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے پارلیمان کی بالادستی کے لئے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھا ہے، اسپیکر ایاز صادق نے ہمیشہ اسپیکر کی کرسی کے ساتھ انصاف کیا، پارلیمان میں موجود تمام جماعتوں کے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ اچھا رہا، اسپیکر قومی اسمبلی نے ہمیشہ بہترین انداز میں امور انجام دئے، اُن کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی رکن کی حق تلفی نہ ہو، سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ سپیکر قومی اسمبلی کے فیصلوں کی تائید کی ہے۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کا الیکشن کمیشن کو خط سنگ میل ہے، آئین میں پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیا گیا ہے، یہ اختیار کسی دوسرے ادارے کے پاس نہیں، پارلیمنٹ بالادست ادارہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی آرٹیکل 63 اے کی تشریح آئین دوبارہ لکھنے کے مترادف ہے، کسی پارٹی میں شامل ہونے والا رکن دوبارہ کسی اور جماعت میں کیسے شامل ہو سکتا ہے؟ مخصوص نشستوں سے متعلق عدالتی فیصلے نے بہت سے سوالوں کو جنم دیا ہے، اسپیکر نے آج جو قدم اٹھایا اس پر ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں، کسی ادارے کو حق حاصل نہیں کہ وہ آئین کی اپنی مرضی سے تشریح کرے اور پارلیمان کو کمزور کرنے کی کوشش کرے، آئین اور قانون عوام کے منتخب نمائندوں کا حق ہے، پارلیمان کی بالادستی کے لئے ہم اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔

Read Comments