Aaj Logo

اپ ڈیٹ 19 ستمبر 2024 05:57am

ملٹری کورٹس کو قبول نہیں کریں گے، آئینی عدالت کا دائرہ محدود ہونا چاہیے، رؤف حسن

پی ٹی آئی رہنما رؤف حسن نے کہا کہ ہمارا اور مولا نا کا ایک ہی موقف ہے، اسد قیصر کی دعوت پر مولانا تشریف لائے ، ملاقات کے بعد مولانہ نے کہا کہ جتنے بھی مسودہ ملا ہے ہم اس کو مسترد کرتے ہیں، آئین کی ترامیم رات کے اندھیرے میں نہیں ہوتیں آئینی کورٹ کا محدود دائر ہ اختیار ہونا چاہیئے۔۔ اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان بات چیت کا آغاز کوئی تیسرا شخص بھی کر سکتا ہے۔

رؤف حسن نے آج نیوز کے پروگرام ’ نیوز انسائیڈ’ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان کچھ ملاقات کی اطلاعات ہیں ، جس میں ہم سے تعاون کی درخواست کی گئی ہے ، لیکن یہ لوگ جس طرح کی ترامیم لانا چاہتے ہیں اس بات پر کرنا ہی غیر مناسب ہے ، آئین کی ترامیم رات کے اندھیرے میں نہیں ہوتیں ۔

انھوں نے کہا کہ ہم دیکھیں گے معاملات کس جانب جاتے ہیں اس کے بعد ہم فیصلہ کریں گے،ہمارا اور مولانا کا ایک ہی موقف ہے۔ نہ ہم اور نہ ہی مولانا ملٹری کورٹس کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ آئینی عدالت کا محدود دائر ہ اختیار ہونا چاہیئے۔

آئینی عدالت کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ آئینی کورٹ کا مقصد اپنے من پسند ججز کی تعیناتی کرنا ہے جو کہ ان کے کنٹرول میں ہو گی اور جو سپریم کورٹ سے بھی بالا تر ہو تاکہ جو بھی فیصلے ہوں وہ سپریم کورٹ میں نہ ہوں ۔

رؤف صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مذاکرات ریاست کے مفاد میں ہے ، بات چیت کے دروازے ہم نے سب کے لئے کھولے ہوئے ہیں ، لیکن ہم مینڈیٹ چور تین پارٹیوں جن میں پی پی پی ، ن لیگ اور ایم کیو ایم شامل ہیں ان سے بات نہیں کریں گے اور اگر بات چیت کرنا چاہتے ہیں تو محمود اچکزئی ان سے بات کر سکتے ہیں جن کو عمران خان نے ان کو مینڈیٹ دیاہوا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان بات چیت کا آغاز کوئی تیسرا شخص بھی کر سکتا ہے۔

پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ اسد قیصر کی دعوت پر مولانا تشریف لائے ، ملاقات کے بعد مولانہ نے کہا کہ جتنے بھی مسودہ ملا ہے ہم اس کو مسترد کرتے ہیں، ہم نے ایک کمیٹی بنائی ہے جو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کے معاملات کو طے کرئے گی، ہم جب آخری بار ملے تھے تو دو کمیٹیاں بنیں تھیں آج بھی ہم نے آئین کے تناظر میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس کا مقصد آئین کے بارے میں فیصلے پر بحث کرنا اور مسائل کا حل نکالنا ہے۔

Read Comments