میڈیا کی مہربانی سے یہ تاثر عام ہے کہ اسرائیلی کا خفیہ ادارہ بہت ہی زیادہ ذہین ہے اور کوئی بھی اُس کا مقابلہ نہیں کرسکتا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موساد نے بھی بہت سے معاملات میں ناکامی کا منہ دیکھا ہے اور کبھی کبھی تو منہ کی کھانا پڑی ہے۔
چشمہ بم سے تیزابی مانعِ حمل مصنوعات تک موساد نے بہت عجیب کھیل کھیلے ہیں اور کئی قاتلانہ حملے ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں۔ انڈیا ٹوڈے نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ یہ تاثر پروان چڑھایا گیا ہے کہ موساد عام طور پر راڈار سے نیچے رہتے ہوئے کام کرتی ہے اور اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا اُس کا طریقہ بہت زبردست ہے اور بے داغ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کبھی کبھی موساد بھی بُری طرح الجھ جاتی ہے۔ 1954 میں مصر کے معاملے میں ایسا ہی ہوا تھا۔
اسرائیل میں موساد کے علاوہ امن اور شِن بیت بھی خفیہ ادارے ہیں۔ گزشتہ روز لبنان میں پیجرز کے دھماکوں کے حوالے سے موساد کو غیر معمولی کامیابی کا کریڈٹ دیا جارہا ہے تاہم ایسے معاملات میں اسرائیل کے ہر دعوے کو قبول نہیں کیا جاسکتا کیونکہ موساد کے بھی کئی منصوب ناکام رہے ہیں۔
1954 میں وزارتِ دفاع میں چیف آف اسٹاف موشے دایان اور ڈائریکٹر شمون پیریز اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا چاہتے تھے اور اس کے لیے وہ وزیرِدفاع لیوون سے زیادہ بین گوریان سے مشاورت کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔
تب امن زیادہ چہیتی تھی اور لیوون نے موساد کو سائڈ لائن کردیا گیا تھا۔ یہ طے کیا گیا تھا کہ بیرونِ ملک دشمنوں کی صفوں میں گھسنے کا کام موساد کا تھا مگر یہ انتظام لیوون نے وزیرِدفاع بنتے ہی کھڑکی سے باہر پھینک دیا تھا۔
مصر میں شورش برپا تھی۔ شاہ فاروق کا تختہ الٹا جاچکا تھا۔ جمال عبدالناصر ایوانِ اقتدار پر متصرف تھے۔ وہ عرب دنیا کے لیڈر بننے کے متمنی تھے۔ وہ نہرِ سوئز کا کنٹرول چاہتے تھے اس نہر کے پورے علاقے سے برطانوی فوج کا انخلا چاہتے تھے۔
جمال عبدالناصر کے حوالے سے مغرب کا ردِ عمل اور طرزِ عمل دونوں ہی اسرائیل کے لیے پریشان تھے۔ برطانوی فوجیوں کے نکل جانے کے بعد سینائی کے علاقے سے مصر کے لیے اسرائیل پر حملہ کرنا انتہائی آسان ہوجانا تھا۔ اسرائیل نیا نیا قائم ہوا تھا۔ وہ اس دردِ سر کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ عرب دنیا کی طرف سے محاصرہ بھی برداشت نہیں کرسکتا تھا۔
امن کو ٹاسک ملا اور اُس نے جو کچھ کیا وہ بیرونی سرزمین پر اسرائیل کا ناکام ترین آپریشن تھا۔ اسرائیل نے مصر میں دہشت گرد نیٹ ورک قائم کرنا چاہا۔ دکھاوا یہ کرنا تھا کہ یہ عرب نیٹ ورک ہے۔ قاہرہ میں برٹش کانول اور امریکن انفارمیشن سینٹر پر حملہ کیا جانا تھا۔
اسرائیل کو یقین تھا کہ ایسا ممکن ہوسکا تو مصر کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے گا۔ اسرائیل کو یہ بھی یقین تھا کہ ان حملوں کے بعد جمال عبدالناصر اپنے پرانے دشمنوں کے خلاف ایکشن لینے پر مجبور ہوں گے۔ اخوان المسلمون زیرِعتاب ہوگی اور مغربی دنیا قائرہ میں قائم حکومت پر شک کرنے لگے گی۔ جو کچھ کرنا تھا اُسے آپریشن سُوزانا کہا گیا۔
اس کے لیے مصری یہودیوں کے ایک گروپ کو تیار کیا گیا مگر وہ تربیت یافتہ نہ تھا۔ یہ لوگ بہت زیادہ جذباتی تھے اور سرِعام اجلاس شروع کردیے۔ اِنہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اسرائیل کی طرف سے ملنے والے پیغام ریڈیو سیٹ پر کس طور وصول کرنے ہیں۔ مصر کے خفیہ اداروں نے اِن مصری یہودیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کردیا اور یوں اس آپریشن کے ذریعے مصر میں آباد تمام یہودیوں کی زندگی خطرے میں پڑگئی۔
اسرائیلی خفیہ ادارے امن نے کام شروع کردیا۔ آپریشن سُوزانا کے آپریٹِوز کو معقول تربیت نہیں ملی تھی۔ اُنہیں اپنی عقل ہی سے کام لینا تھا۔ انہیں گھریلو ساختہ بم دیے گئے۔ یہ بم دو طرح کے تھے۔ ایک طرف تو ایسڈ سے بھرے ہوئے کونڈوم تھے اور دوسری طرف ایسے چشمے تھے جن میں بارود بھرا ہوا تھا۔ اب انہیں ’مادرِوطن‘ کی طرف سے احکامات کا انتظار تھا۔
رونالڈ پائن نے اپنی کتاب موساد : اسرائیلز موسٹ سیکریٹ سروس میں لکھا کہ 1954 میں احکامات آئے۔ اس آپریشن کا بنیادی مقصد مصر اور برطانیہ کے درمیان برطانوی فوجیوں کے انخلا سے متعلق معاہدے کو روکنا یا ملتوی کروانا تھا۔ ثقافتی اور معاشی اداروں کو نشانہ بنانا تھا۔ ریڈیو سیٹس پر احکامات دے دیے گئے۔ تیسرے نمبر پر کاروں، برطانوی نمائندوں اور دیگر برطانوی شہریوں کو نشانہ بنانا تھا۔
اسکندریہ کے ایک ڈاک خانے میں چھوٹے دھماکے کیے گئے۔ اس کے بعد گروپ نے امریکی انفارمیشن سروس کے کتب خانوں میں چشمہ بم کے دھماکوں کی ٹھانی۔ یہ کتب خانے اسکندیہ اور قائرہ میں تھے۔ انہوں نے خام بم قاہرہ کے مختلف علاقوں کے سنیما گھروں اور ریلوے اسٹیشنز پر بھی نصب کیے۔ یہ جمال عبدالناصر کے ’انقلاب‘ کی سالگرہ کا دن تھا۔ تاثر یہ دینا تھا کہ مصر ہی کے لوگوں نے یہ سب کچھ کیا ہے۔ یہ تمام بم ناکام رہے اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ اِس سے بھی بُرا تھا۔
اسکندریہ میں انیس سالہ فلپ نیتھنسن ایک سنیما گھر کی قطار میں چشمہ کا کیس ہاتھ میں لیے مناسب موقع کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ سنیما گھر میں داخل ہونے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ چشمے کا کیس اُس کی جیب میں پھٹ گیا۔ نیتھنسن کو مصری پولیس کی اسپیشل برانچ کے اہلکاروں نے بچالیا مگر سب کی سمجھ میں آگیا کہ ہوا کیا تھا۔
چند ہی گھنٹوں میں اسرائیلی نیٹ ورک تاش کے پتوں کی طرح گرگیا۔ مصری پولیس نے موساد کے ٹاپ ایجنٹ میکس بینیٹ کو بھی پکڑلیا۔ اُس کے ریڈیو سیٹ نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ اُسے مصر کے ایک غیر تربیت یافتہ یہودی نیٹ ورک سے رابطہ کرنا پڑا۔ مصریوں نے اُسے جھپٹ لیا۔
یہ موساد کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔ میکس بینیٹ کی گرفتاری کے بعد مصر میں اسرائیل کا کوئی خفیہ ایجنٹ نہ رہا جبکہ اُس وقت اُسے مصر میں ایجنٹس کی بہت ضرورت تھی۔