Aaj Logo

اپ ڈیٹ 18 ستمبر 2024 12:43pm

5 سال بعد انٹرا پارٹی انتخاب کے نتائج بھگتنا ہوں گے، الیکشن کمیشن

الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف انٹراپارٹی الیکشن کیس میں پی ٹی آئی کی ریکارڈ جمع کرانے کے لیے 10 روز کی مہلت کی استدعا منظور کرلی جبکہ دوران سماعت ممبر خیبرپختونخوا اکرام اللہ نے ریمارکس دیے کہ 5 سال بعد انٹرا پارٹی انتخاب کروائے، اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی نے دستاویزات جمع کرنے کے لیے 10 روز کی مہلت کی استدعا کی کمیشن نے استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت دواکتوبرتک ملتوی کردی

ممبرسندھ نثار درانی کی سربراہی میں 3 رکنی کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کیس سماعت کی، چییرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے الیکشن کمیشن سے مہلت مانگ لی، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ہمارے وکیل آج پیش نہیں ہو سکتے، تین ہفتوں کا وقت دے دیں۔

سپریم کورٹ فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کا انٹرا پارٹی الیکشن کیس مقرر کردیا

ممبر بلوچستان نے پوچھا کہ پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن کیا چمکنی میں ہوئے تھے؟ جس پر بیرسٹر گوہر نے کہا کہ نہیں، انتخابات اسلام آباد میں بھی ہوئے تھے، دستاویزات جمع کروانی کے لیے 10 تک کا وقت دیں۔

ممبر الیکشن کمیشن نے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر سے کہا کہ یہ آپ نے اچھا کہا کہ ان شاء اللہ آپ کو ریکارڈ دے دیں گے۔

اس موقع پر ممبر خیبرپختونخوا اکرام اللہ کا کہنا تھا کہ ویسے آپ نے الیکشن کہاں کرائے تھے؟ 5 سال کے اندر آپ نے انتخاب نہیں کروائے، 5 سال کے بعد انٹرا پارٹی انتخاب کروائے، اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔

کمیشن نے الیکشن کمیشن حکام سے پوچھا کہ اگر پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو ہم اب بھی تسلیم نہیں کرتے تو کیا مستقبل ہوگا، جس پر ڈی جی پولیٹیکل فنانس نے کہاکہ پارٹی کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ نہیں رہے گا۔

ممبر خیبرپختونخوا نے کہا کہ فرض کریں ہم پی ٹی آئی انٹرا پارٹی تسلیم نہیں کرتے؟ الیکشن ایکٹ کے تحت پارٹی پر 5سال کی پابندی لگ سکتی ہے، انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے پر ہم کیا کارروائی کرسکتے ہیں؟ جس پر بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم آپ کو اس معاملے پر بھرپور معاونت فراہم کریں گے تاہم اس معاملے پر الیکشن کمیشن جو کرسکتا تھا اس نے کرلیا۔

بیرسٹرگوہر کی میڈیا سے گفتگو

سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں بیرسٹرگوہر نے کہا کہ پی ٹی آئی نے بہترین قسم کے انٹراپارٹی الیکشن کرائے، پی ٹی آئی نے چاروں صوبوں میں انٹراپارٹی الیکشن کرائے، پی ٹی آئی چیئرمین،سیکرٹری جنرل، چار صدور کا انتخاب کیا گیا تھا، کسی نے بھی پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن پراعتراض نہیں کیا تھا۔

بیرسٹرگوہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنے خط میں آئینی اور قانونی سوال پوچھے تھے، الیکشن کمیشن نے خط میں کوئی اعتراض نہیں اٹھایا تھا، مخصوص نشستوں کے کیس میں الیکشن کمیشن نے خود دستاویز جمع کرائے، الیکشن کمیشن کی پی ٹی آئی اسٹرکچر سے متعلق بات غلط تھی، ہم نے الیکشن کمیشن کے سوال کاجواب سپریم کورٹ میں فائل کیا۔

بعد ازاں الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخاب کیس کی سماعت 2 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ 6 ستمبر کو الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی چاروں متفرق درخواستیں مسترد کردی تھیں۔

27 اگست کو الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی انٹرا پارٹی انتخابات کیس میں سپریم کورٹ کی وضاحت آنے تک مقدمے کو زیر التوا رکھنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

دوران سماعت تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو چیلنج کر دیا تھا۔

وکیل عذیر بھنڈاری کا کہنا تھا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کی جانچ پڑتال الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، الیکشن کمیشن صرف یہ دیکھ سکتا ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے تھے یا نہیں، الیکشن کمیشن پہلے دائرہ اختیار کا فیصلہ کرے۔

انٹرا پارٹی انتخابات کیس: الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کی متفرق درخواستیں مسترد کردیں

اس پر ڈی جی لا نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے شارٹ آرڈر میں کہا تھا کہ صرف 41 آزاد ارکان کے پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کروائے جائیں، سپریم کورٹ نے کسی مخصوص جماعت کا ذکر نہیں کیا تھا، آزاد رکن کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہو سکتا ہے، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے یہ وضاحت مانگی ہے کہ 41 ارکان کی پی ٹی آئی میں شمولیت کیلئے کس کا سرٹیفکیٹ تسلیم کیا جائے؟

23 جولائی کو الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو دستاویزات جمع کروانے کے لیے مہلت دے دی تھی۔

13 جولائی کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن کیس سماعت کے لیے مقرر کر دیا تھا۔

کیس کا پس منظر

پی ٹی آئی نے 9 جون 2022 کو انٹرا پارٹی انتخابات کرائے تھے جس کیس کو الیکشن کمیشن نے تقریباً ڈیڑھ سال تک گھسیٹنے کے بعد نومبر 2023 میں کالعدم قرار دے دیا تھا۔

23 نومبر 2023 کو جاری حکم میں الیکشن کمیشن نے سابق حکمران جماعت کو اپنے انتخابی نشان بلے سے محروم نہیں ہونے کے لیے نئے انتخابات کروانے کے لیے 20 دن کا وقت دیا۔

الیکشن کمیشن کا حکم ایک ایسے وقت میں آیا جب عام انتخابات میں تقریباً دو ماہ باقی تھے اور سیاسی جماعتیں ملک بھر میں اپنی انتخابی مہم تیزی سے چلا رہی تھیں۔

اپنے مشہور انتخابی نشان کو برقرار رکھنے کے لیے بے چین پی ٹی آئی نے 10 دن سے بھی کم وقت لیا اور 2 دسمبر 2023 کو انٹرا پارٹی انتخابات کرائے گئے۔

انٹرا پارٹی الیکشن کیس زیر التوا رکھنے کی پی ٹی آئی کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ

22 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں دوسری بار پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا جس کے بعد ایک سیاسی جماعت کے اندرونی کام کی نوعیت کا پہلا خوردبینی جائزہ لیا گیا اور اسے آئندہ الیکشن میں حصہ لینے کے لیے انتخابی نشان حاصل کرنے کے لیے نااہل قرار دیا گیا۔

الیکشن کمیشن نے مؤقف اختیار کیا کہ پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کے لیے وفاقی الیکشن کمشنر کا تقرر نہیں کر سکتے تھے۔

کمیشن کے فیصلے کی وجہ سے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو آزاد حیثیت سے عام انتخابات میں حصہ لینا پڑا اور پارٹی کو اس سال 3 مارچ کو تیسری بار اپنا انٹرا پارٹی الیکشن منعقد کرنا پڑا۔

تاہم الیکشن کمیشن نے ایک بار پھر انتخابی مشق پر اعتراضات اٹھائے اور اعتراضات کی تفصیلات بتائے بغیر ہی معاملہ سماعت کے لیے مقرر کردیا۔

پی ٹی آئی کے اعتراضات پر کمیشن نے بالآخر ان کے ساتھ ایک سوالنامہ شیئر کیا جس میں پارٹی کے انٹرا پارٹی انتخابات کے بارے میں معلومات حاصل کی گئیں اور تنظیمی ڈھانچہ اور انتخابی نشان کھونے کے بعد پارٹی کی حیثیت پر سوال اٹھایا گیا۔

پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی طرف سے پوچھے گئے 7 سوالات کے تفصیلی جواب جمع کرائے تھے، جس میں الیکشن باڈی پر زور دیا گیا تھا کہ وہ تازہ ترین انٹرا پارٹی انتخابات کو باضابطہ طور پر تسلیم کرے، پارٹی کے وفاقی چیف الیکشن کمشنر رؤف حسن نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ پی ٹی آئی ایک موجودہ اور فعال سیاسی جماعت ہے جو الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 202 کے تحت الیکشن کمیشن میں درج ہے۔

انہوں نے جواب میں الیکشن کمیشن کے تحفظات دور کرنے کے لیے کہا کہ الیکشن ایکٹ، 2017، یا الیکشن رولز، 2017 میں ایسی کوئی شق نہیں ہے کہ ایک اندراج شدہ پارٹی پانچ سال کی میعاد ختم ہونے کے بعد اپنے ’تنظیمی ڈھانچے‘ سے محروم ہو جائے گی اگر پانچ سال کے اندر کوئی انٹرا پارٹی الیکشن منعقد نہیں ہوتا ہے تو، تاہم اس میں بتایا گیا کہ پی ٹی آئی نے اپنا انٹرا پارٹی انتخاب 9 جون 2022 کو منعقد کیا، لیکن الیکشن کمیشن نے 23 نومبر 2023 کو ہدایت کی کہ انٹرا پارٹی پی ٹی آئی کے ’مروجہ آئین‘ (2019 کے آئین) کے تحت منعقد ہونا چاہیے۔

اور ان انتخابات کے انعقاد کے لیے پاکستان میں پی ٹی آئی کے تمام اراکین پر مشتمل پی ٹی آئی کی جنرل باڈی کا اجلاس 31 جنوری کو بلایا گیا، جنرل باڈی سے مطلوبہ منظوری لی گئی، جس کے تحت ایف ای سی کو بھی جلد از جلد انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد کے لیے مقرر کیا گیا، اس کے بعد پی ٹی آئی نے 21 فروری کو ای سی پی کو جنرل باڈی کی منظوریوں کی روشنی میں انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد کے لیے کیے گئے تمام اقدامات سے آگاہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے 2 مارچ کو ان اقدامات کی توثیق کی اور پارٹی کو پی ٹی آئی کے آئین کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کو آگے بڑھانے اور منعقد کرنے کی ہدایت کی، اس کے مطابق انٹرا پارٹی 3 مارچ کو منعقد ہوا اور دستاویزات کمیشن کے پاس جمع کرائی گئیں، لہٰذا، پی ٹی آئی آج تک ایک اندراج شدہ سیاسی جماعت ہے اور اس طرح وہ آئین کے آرٹیکل 17، الیکشنز ایکٹ، 2017، اور الیکشن رولز، 2017 سمیت قانون کی متعلقہ دفعات کے تحت اپنے حقوق کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہے۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدواروں کو آزاد حیثیت سے عام انتخابات میں حصہ لینا پڑا اور پارٹی کو اس سال 3 مارچ کو تیسری بار اپنا انٹرا پارٹی انتخابات منعقد کرنا پڑا تھا۔

Read Comments