مقبوضہ جموں و کشمیر کی نام نہاد ریاستی اسمبلی کے الیکشن تین مرحلوں میں ہورہے ہیں، اسمبلی کی کل نوے سیٹیں ہیں، ان میں تینتالیس جموں اور سینتالیس کشمیر کی ہیں، پہلے مرحلے میں آج چوبیس سیٹوں یعنی سولہ کشمیر اور آٹھ جموں کی سیٹوں پر انتخابات ہیں، پامپور، کلگام، شوپیاں، پہلگام اور اننت ناگ کے علاقے ان حلقوں میں شامل ہیں، ان علاقوں میں کشمیری عسکریت پسند بہت مضبوط تصور کیے جاتے ہیں اور بھارت نے لاکھوں کے تعداد میں فوجی اور نیم فوجی تعینات کیے ہیں تاکہ کسی نہ کسی طرح الیکشن کرا لے۔ ایک دہائی کے بعد ہونے والے الیکشن کے لیے تین ہزار دو سو چھہتر پولنگ اسٹیشن بنائے گئے ہیں، جن میں تیئیس لاکھ ستائیس ہزار پانچ سو اسی ووٹرز رائے دہی کے لیے اہل ہیں۔
کشمیر کی مقامی جماعتوں نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، پیپلز کانفرنس، عوامی اتحاد پارٹی سمیت اس بار جماعت اسلامی بھی الیکشن میں حصہ لے رہی ہے، حالانکہ جماعت اسلامی اور کل جماعتی حریت کانفرنس مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے زیرسایہ ہونے والے الیکشن کا بائیکاٹ کرتی رہی ہیں، اب ایسا کیا ہوگیا کہ بھارت مخالف جماعتیں بھی الیکشن کا حصہ ہیں۔
بھارت ہمیشہ مقبوضہ کشمیر میں الیکشن کا ڈھونگ اس لیے رچاتا ہے کہ دنیا کو یہ باور کراسکے کہ کشمیری عوام تو بھارت کا حصہ ہیں، جبکہ اقوام متحدہ کی قرارداوں کے مطابق جموں و کشمیر متنازع علاقہ ہے، مقبوضہ کشمیر کو بھارتی آئین میں خصوصی حیثیت بھی حاصل تھی، لیکن بھارت کی انتہاپسند حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے مودی کی سربراہی میں پانچ اگست دو ہزار انیس کو پارلیمنٹ میں بل پاس کرایا، اور بھارتی آئین کے آرٹیکل تین سو ستر کے تحت مقبوضہ کشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت ختم کردی، اسی طرح پینتس اے کی شق کو بھی ختم کردیا گیا جو کشمیر میں کسی غیر کشمیری کے جائیداد خریدنے کو روکتی ہے، بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا، اسے لداخ اور جموں و کشمیر ٹیریٹریز بنا دیا۔
مودی سرکار کے اس اقدام کو کشمیری عوام نے مسترد کردیا تھا اور طویل عرصے تک ہڑتال کی جس نے بھارت کے غیرقانونی اقدام کو دنیا میں نمایاں کردیا، لیکن کیا صرف ہڑتال اور احتجاج سے بھارت کو غیرقانونی ہتھکنڈوں کے استعمال سے روکا جاسکتا ہے۔ موجودہ حالات میں یا تو آپ سازشی الیکشن کا بائیکاٹ کردیں اور بی جے پی، کانگریس یا بھارت نواز جماعتوں کو حکومت بنانے کا سنہرا موقع فراہم کردیں یا پھر جموں و کشمیر کی نام نہاد اسمبلی کا حصہ بنیں اور بھارتی آئین کے آرٹیکل تین سو ستر کو بحال کرائیں۔ شاید اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس بار بھارت مخالف سیاسی جماعتوں نے بھی الیکشن میں کسی نہ کسی صورت میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا، ایسا لگتا ہے کہ مقبوضہ وادی کی بھارت مخالف سیاسی جماعتوں نے کشمیر کا مقدمہ میدان جنگ کے ساتھ سیاسی میدان میں لڑنے کا بھی فیصلہ کرلیا۔
عمر عبداللہ کی بھارت نواز نیشنل کانفرنس نے بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس سے اتحاد کیا اور دونوں کی منصوبہ بندی کچھ اس طرح ہے کہ کانگریس ہندو اکثریتی علاقوں سے پندرہ سیٹیں حاصل کرلے اور نیشنل کانفرنس تیس سے زیادہ سیٹوں پر کامیاب ہوجائے اس طرح اسمبلی میں پینتالیس ووٹوں سے سادا اکثریت حاصل کرلی جائے۔ دوسری طرف بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی مقبوضہ وادی کی انیس سیٹوں اور مقبوضہ جموں کی تمام تینتالیس سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ وہ بھی یہ خواہش رکھتی ہے کہ کسی طرح کشمیر میں اپنی حکومت بنائے۔ محبوبہ مفتی کی بھارت نواز پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی بھی میدان میں ہے اور سیاسی اجتماعات میں محبوبہ مفتی کشمیری شہدا کی قبروں کا بار بار ذکر کرتی ہیں تاکہ عوامی جذبات کو ابھار کر ووٹ حاصل کرسکیں، محبوبہ مفتی کو بھارتی پارلیمانی الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اس لیے کشمیر اسمبلی کے لیے الیکشن میں وہ خود تو حصہ نہیں لے رہیں البتہ اپنی بیٹی کو سامنے لائی ہیں۔
اب بات کرتے ہیں مقبوضہ جموں و کشمیر کے منظرنامے پر ابھرنے والی جماعت عوامی اتحاد پارٹی کی جس کے سربراہ انجینئر رشید ہیں، جنھیں مبینہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنڈنگ کے الزام میں بھارت نے اگست دو ہزار انیس میں گرفتار کیا اور بدنام زمانہ تہاڑ جیل پہنچا دیا، کچھ عرصے قبل بھارتی لوک سبھا کے الیکشن میں انھوں نے جیل سے الیکشن میں حصہ لیا اور حیران کن طور پر عمر عبداللہ کو دو لاکھ سے زائد ووٹوں کی سبقت سے شکست دی۔ انجینئر رشید کو عبوری ضمانت مل چکی ہے اور وہ زور و شور سے الیکشن مہم کا حصہ ہیں، انھوں نے تیس کے قریب سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ بظاہر کشمیر میں اس وقت انجینئر رشید کا طوطی بول رہا ہے۔
اسی طرح جماعت اسلامی کشمیر ہے جو کئی دہائیوں سے کشمیر میں ہونے والے ہر طرح کے نام نہاد الیکشن کا بائیکاٹ کرتی آرہی ہے، جماعت کی پالیسی پاکستان سے الحاق پر مبنی ہے تو اسے بھارت بڑا خطرہ سمجھتا ہے، بھارت نے فروری دو ہزار انیس میں جماعت پر پابندی عائد کردی تھی، رواں برس فروری میں ایک بار پھر جماعت پر پانچ سال کی پابندی عائد کی گئی، جماعت اسلامی نے عوامی اتحاد پارٹی نے اتحاد بنا لیا ہے، جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ دس کے قریب امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان امیدواروں کے علاوہ بھی کچھ ایسے امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں جو بنیادی طور پر جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں لیکن کسی اختلاف نے انھیں جماعت سے الگ کردیا ہے، تاہم ان کی سوچ جماعت کی پالیسی کے عین مطابق ہے۔ یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ عوامی اتحاد پارٹی اور جماعت اسلامی کا الیکشن کمیشن میں اندراج نہیں ہے، اس لیے ان کے تمام امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔
عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کی سیاسی جماعتیں مقبوضہ وادی میں بھارتی سرپرستی میں اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہیں لیکن بھارت سے علیحدگی اور پاکستان سے الحاق کے عوامی مطالبے پر کبھی کان نہیں دھرے، یہی وجہ ہے کہ عوام ان سے بے زار دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن انجینئر رشید نے عوام کو ان کے مطالبات کو پورا کرنے کا یقین دلایا ہے، ان میں بھارتی مظالم سے نجات اور مسئلہ کشمیر کا حل ترجیح ہے۔
بھارت کی انتہا پسند جماعت بی جے پی اور کانگریس کشمیر میں پاؤں جمانے کی کوششوں میں ہے، کشمیری عوام باشعور اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں، اگر وہ الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو یقیناً کچھ ایسا کر گزریں گے کہ بھارت سے کشمیر کی آزادی کی راہ ہموار ہوگی، لیکن اس کا نتیجہ تمام سیٹوں پر الیکشن اور آٹھ اکتوبر کو ووٹوں کی گنتی کے بعد ہی سامنے آسکے گا۔