جمعیت علمائے اسلام (ف) نے سینئیر صحافی حامد میر کے دعوے کی تردید کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پارٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پر متنازع آئینی ترمیم کو ووٹ دینے اور وفاقی کابینہ میں شامل ہونے کے لیے دباؤ تھا۔
جے یو آئی (ف) کے رہنما راشد محمود سومرو نے پیر کو آج نیوز کے پروگرام ”نیوز انسائٹ وِد عامر ضیاء“ میں شرکت کے دوران حامد میر کے دعوؤں کی تردید کی۔
جب ان سے ان خبروں کے بارے میں پوچھا گیا کہ مولانا فضل الرحمان صرف وفاقی کابینہ کے دباؤ میں نہیں تھے بلکہ حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے ایک غیر ملکی سفیر نے بھی رابطہ کیا تھا، تو انہوں نے کہا، ’نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے‘۔
”26ویں آئینی ترمیم“ کے طور پر بیان کردہ، مجوزہ قانون سازی کو چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
اگرچہ اس قانون کو ابتدائی طور پر پیر کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کیا جانا تھا، لیکن حکومت ضروری حمایت حاصل کرنے کی بھرپور کوششوں کے باوجود اسے ہفتے کے آخر میں پیش کرنے سے قاصر رہی۔ حکومت مولانا فضل الرحمان کو گھنٹوں کی کوششوں کے بعد بھی راضی کرنے میں ناکام رہی۔
اتوار کی رات خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے دوران مجوزہ ترامیم کی تفصیلات پر بحث کی گئی، جنہیں زیادہ تر پوشیدہ رکھا گیا تھا۔
حامد میر نے جیو نیوز کے شو ”آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ“ گفتگو کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ وفاقی کابینہ میں ایک گروپ فضل الرحمان کو کہیں سے ٹیلی فون کرانے میں کامیاب ہوگیا اور ان سے نہ صرف حکومت کی حمایت کرنے بلکہ کابینہ میں شامل ہونے کو کہا گیا ہے۔
پروگرام کیپیٹل ٹاک کی میزبانی کرنے والے صحافی نے الزام لگایا کہ کابینہ کے کچھ ارکان کا خیال تھا کہ وہ صرف ایک ٹیلی فون کال کے ذریعے مذہبی سیاسی رہنما کا ووٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن فضل الرحمان اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔
حامد میر کے مطابق، جے یو آئی ف کے سربراہ کی جانب سے قانون سازی کے لیے ووٹ دینے کی درخواست پر صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف کو شائستہ انکار کے بعد حکومت نے ’باہر سے کسی کو فضل الرحمان کو فون کرنے کو کہا‘۔
صحافی کا خیال تھا کہ اس ”غیر ضروری دباؤ“ نے مولانا فضل الرحمان کو ناراض کیا، کیونکہ آئینی ترمیم ان کے سامنے نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ابھی بھی فضل الرحمان کو آن بورڈ لینے اور اس پر پی ٹی آئی رہنما کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
حامد میر کے مطابق جے یو آئی (ف) کے چیئرمین آئینی عدالت میں چیف جسٹس کی تقرری کے خلاف تھے اور انہوں نے حکومت کو ایک ماہ تک انتظار کرنے کا کہا تھا۔ انہوں نے حکومت سے کہا کہ وہ موجودہ چیف جسٹس کے ریٹائر ہونے کا انتظار کرے۔
26ویں آئینی ترمیم میں کیا ہے: خلاصہ
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی نے حکومت سے ٹیبل ٹاک کرنے اور اپنے چار آدمیوں کو رہا کرنے کو کہا۔ بی این پی مینگل بھی چاہتی ہے کہ ووٹ کے لیے دو ہزار لاپتہ افراد لو رہا کیا جائے۔
صحافی نے دعویٰ کیا کہ متنازع آئینی ترامیم کے کم از کم تین سے چار مسودے تھے اور جے یو آئی ف کو پیش کیا گیا تیسرا مسودہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ جب پیپلز پارٹی نے اسے دیکھا تو پہلے والے سے اس کا موازنہ کرنے کے بعد پریشان ہو گئی۔ وہ پارلیمنٹ لاجز گئے اور اپنے فون بند کر دیے۔
حامد میر نے دعویٰ کیا کہ اگر پارٹی انہیں حکم دے گی تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔
جب مسلم لیگ (ن) کے کچھ ارکان پارلیمنٹ کو معلوم ہوا کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف لاہور کے لیے روانہ ہو گئے ہیں، تو حامد میر نے دعویٰ کیا کہ ان میں سے کچھ نے پارٹی کو بتایا کہ وہ اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا حکومت خود کو غیر مستحکم کر رہی ہے، صحافی نے جواب دیا کہ آزاد سینیٹر فیصل واوڈا کے اس تبصرے کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ حکومت ’نااہل ہے کیونکہ اس کا کچھ پس منظر ہے۔‘
حامد میر نے دعویٰ کیا کہ ن لیگ نے قانون سازی میں ناکامی کے بعد بلاول کو آگے کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت ”فیس سیونگ“ کے لیے قانون سازی کرے گی جو پیپلز پارٹی، جے یو آئی ف اور پی ٹی آئی کے لیے قابل قبول ہوگی۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو حکومتی حلقوں سے جو کچھ میں سن رہا ہوں وہ یہ ہے کہ کابینہ کے کچھ ارکان اپنے مستقبل کے بارے میں پریشان ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ کیا ہوگا۔