امریکا میں زیر حراست پاکستانی آصف مرچنٹ نے پاسداران انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلے لینے کے لیے امریکی اہلکار کو قتل کرنے کی مبینہ سازش کے الزامات سے انکار کردیا۔
واضح رہے کہ امریکی محکمہ انصاف اور استغاثہ نے آصف مرچنٹ پر بدلے کی آگ میں امریکی اہلکار کو قتل کرنے کی مبینہ سازش سے متعلق فرد جرم عائد کیا تھا۔
محکمہ انصاف اور استغاثہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ 46 سالہ آصف رضا مرچنٹ نے مبینہ طور پر امریکہ میں کسی سیاستدان یا امریکی حکومت کے اہلکار کو قتل کرنے کے لیے ایک ہٹ مین کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔
یاد رہے ایران کے بین الاقوامی آپریشنز کے سربراہ اور پاسداران انقلاب کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی جنوری 2020 میں بغداد میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔ ایرانی حکام نے بارہا ان کے قتل کا بدلہ لینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
آصف مرچنٹ کی گرفتاری کے بعد ترجمان دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ امریکی سیاستدان اور دیگر اہلکاروں کو قتل کرنے کی سازش کے الزام میں مبینہ طور پر ایران سے تعلقات رکھنے والے گرفتار پاکستانی شہری آصف مرچنٹ کے حوالے سے اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور اس سلسلے میں امریکی حکومت کی جانب سے کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔
واضح رہے کہ 7 اگست کو یہ خبر منظر عام پر آئی کہ امریکا نے پاکستانی شہری آصف مرچنٹ کو امریکی سرزمین پر سیاستدانوں کے قتل کی منصوبہ بندی اور ایران سے قریبی تعلقات کا الزام عائد کیا ہے۔ امریکی ایف بی آئی نے مقامی عدالت میں جمع کرائے دستاویز میں انکشاف کیا کہ آصف مرچنٹ نے رواں برس جون میں اجرتی قاتل سے ملاقات کی جو دراصل انڈر کور آفیسر تھے اور انہیں قتل کے لیے 5 ہزار ڈالر کی ایڈوانس ادائیگی کی اور مرچنٹ کو امریکا سے فرار ہونے کی کوشش سے پہلے ہی انڈر کور افسران کی اطلاع پر گرفتار کیا۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق ایف بی آئی نے دعویٰ کیا کہ آصف مرچنٹ نے جون کے اوائل میں ایک ’مخبر‘ سے نیو یارک میں ملاقات کی اور اُس شخص کو قتل کے منصوبے کی تفصیلات بتائی۔ دستاویزات کے مطابق آصف مرچنٹ نے مبینہ طور پر اپنے مقاصد کے بارے میں بات کرتے ہوئے ’ہاتھ سے بندوق کا نشان‘ بھی بنایا۔
ایف بی آئی کے مطابق آصف مرچنٹ نے جس شخص سے بات کی تھی اس نے ’قانون نافذ کرنے والے اداروں‘ کو اطلاع دی تھی۔ اس سے قبل آصف مرچنٹ ایران کے بعد پاکستان پہنچ تھے اور انہوں نے ایران میں کچھ وقت گزارا تھا۔
مرچنٹ پر الزام ہے کہ اس منصوبے کے تحت ہدف کے گھر سے دستاویزات چُرائی جانی تھیں، مظاہرہ کیا جانا تھا اور ایک سیاستدان یا حکومتی عہدیدار کا قتل کروایا جانا تھا۔
دستاویزات میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ آصف مرچنٹ نے اس شخص سے کہا کہ ان کی ملاقات اجرتی قاتلوں سے کروائی جائے جس کے بعد جون میں ایف بی آئی کے خفیہ ایجنٹوں سے ان کا رابطہ کروایا گیا۔
ان پر الزام ہے کہ انھوں نے جون کے دوران ایک ہِٹ مین یعنی اجرتی قاتل سے ملاقات کی جو دراصل انڈر کور آفیسر تھے اور انھیں قتل کے لیے پانچ ہزار ڈالر کی ایڈوانس ادائیگی کی۔
ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات کا نیا رخ، ’حملہ آور اہلکاروں کے ریڈار پر بھی کئی بار آیا‘
عدالتی دستاویزات کے مطابق آصف مرچنٹ مبینہ طور پر قتل کے منصوبے کی تکمیل سے قبل 12 جولائی کو امریکہ چھوڑنا چاہتے تھے اور انھوں نے اس سلسلے میں پرواز کی بُکنگ بھی کر رکھی تھی۔
آصف مرچنٹ نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ وہ امریکہ چھوڑنے کے بعد کوڈ ورڈ کی مدد سے رابطے میں رہیں گے مگر اسی روز امریکی حکام نے انھیں گرفتار کیا تاکہ وہ ملک نہ چھوڑ سکیں۔
اس موقع پر امریکی اٹارنی جنرل میرک بی گارلینڈ کا کہنا تھا کہ ’ایران کئی برسوں سے ایرانی جنرل سلیمانی کے قتل کے بعد انتقام کی کوششیں کر رہا ہے جسے محکمۂ انصاف کی جانب سے جارحانہ انداز میں ناکام بنایا جا رہا ہے۔ ’محکمہ انصاف ہر ممکن وسائل استعمال کرے گا تاکہ ایران کے مہلک منصوبوں کو ناکام بنایا جا سکے اور امریکی شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔‘