سائنس دانوں نے جدید ترین تحقیق کی مدد سے زندگی اور موت کے درمیان کی کیفیت دریافت کی ہے۔ اس دریافت سے کسی بھی مریض کو اُس کی مرضی سے دی جانے والی موت کو قانونی حیثیت دینے میں آسانی رہے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ تیسری حالت میں کسی بھی شخص کے خلیے نئی زندگی حاصل کرتے ہیں جبکہ موت کی صورت میں خلیوں کی تشکیل اور تجدید کا عمل رک جاتا ہے۔
برطانوی اخبار ڈیلی میل کی ایک رپورٹ کے مطابق آپ نے سائنس فکشن کی فلموں فرینکسٹین اور ری اینییٹر وغیرہ میں دیکھا ہوگا کہ کسی بھی انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرلیا جاتا ہے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ جنہیں زندہ کیا جاتا ہے وہ مرے نہیں ہوتے بلکہ ایک تیسری کیفیت کی طرف لڑھک گئے ہوتے ہیں۔ جو زندگی اور موت سے بہت مختلف ہوتی ہے۔
محققین کہتے ہیں کہ جدید ترین حیاتیات کی رُو سے کسی بھی انسان میں زندگی اور موت کے درمیان ایک تیسری کیفیت بھی پائی جاسکتی ہے جس میں خلیے نئی زندگی پاکر ایک بار پھر ابھرتے ہیں اور پورے وجود کو زندگی کی طرف لاتے ہیں۔
انسانوں اور دیگر جانداروں کے مُردہ خلیوں پر کیے جانے والے تجربات نے ثابت کیا ہے کہ خلیوں کو نئی زندگی مل سکتی ہے اور یوں ’قانونی موت‘ کا مسئلہ بخوبی حل کیا جاسکتا ہے۔
’فِزیولوجی‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والی نئی تحقیق کے مرکزی کردار یونیورسٹی آف واشنگٹن (سئیٹل) کے پروفیسر پیٹر نوبل اور سٹی آف ہوپ نیشنل میڈیکل سینٹر (ڈوارٹ، کیلیفورنیا) کے الیکس پازِٹکوف ہیں۔
ایک ویڈیو پرفیسر پیٹر نوبل اور الیکس پازٹکوف نے کہا کہ عام طور پر زندگی اور موت کو ایک دوسرے کی ضِد قرار دیا جاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ زندگی تسلسل کا نام ہے۔ زندگی اور موت کی روایتی حدود سے باہر بھی یا اُن سے پرے ایک ایسی حالت بھی ہے جو نہ موت ہے نہ زندگی۔
ماہرین کہتے ہیں کہ چند مخصوص خلیے جب آکسیجن سے مزین موزوں ماحول پاتے ہیں تو اُن میں زندگی کی رمق دوبارہ پیدا ہوتی ہے اور وہ پروان چڑھتے ہوئے یہ ثابت کرتے ہیں کہ زندگی اور موت سے ہٹ کر بھی کوئی حالت یا کیفیت پائی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں :
سائنسی انکشاف: قبر میں مردے کے ناخن اور بال کیوں بڑھنے لگتے ہیں؟
سائنسی انکشاف: قبر میں مردے کے ناخن اور بال کیوں بڑھنے لگتے ہیں؟
لافانی زندگی حاصل کرنے کا ’قابل عمل‘ نظریہ، کوئی بوڑھا نہیں ہوگا