آئینی ترمیم کا مسودہ پوشیدہ رکھنے کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن کے رہنماؤں کے مابین بیان بازی کا سلسلہ جاری ہے۔ واضح رہے حکومت ججز کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے میں آئینی ترمیم کی خواہاں ہے اور اس ضمن میں مولانا فضل الرحمان سے ان کی حالیہ مذاکرات میں ناکامی کے بعد معاملہ تعطل کا شکار ہوگیا ہے، حکومت کی جانب سے آئینی مسودہ شیئر نہیں کیا جس کے بارے میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ آئینی مسودہ کبھی پبلک نہیں ہوتا جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ اگر قانون کا ڈرافٹ نہیں، تو اتفاق رائے کس چیز پر پیدا کرنا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چئیرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا ہمیں مسودہ ہی نہیں دیا گیا صرف کچھ معلومات دی گئی ہیں، جب مسودہ ہی نہیں ملا تو اتفاق کس چیز پر پیدا کرنا ہے، ہمارا پہلا مطالبہ تھا کہ مسودہ ہمیں دیا جائے ہم اسے دیکھیں گے۔
بیرسٹر گوہرنے مزید کہا کہ جو مسودہ لیک ہوا ہے اس کے ساتھ کوئی بھی اتفاق نہیں کرسکتاے۔ یہ ججز کو ان کو مرضی کے بغیر ٹرانسفر کریں گے۔ اس کا مطلب جب مرضی جج کو ٹرانفسر کردیا جائے گا اور اگر کوئی جج نہیں جاتا تو اس سے استعفی لیا جائے گا، عدلیہ پر قدغن لگ جائے گی۔ جس طرح نیا کورٹ بن رہا ہے اس طرح تو یہ سپریم کورٹ سے سارے اختیارات لے لیں گے، ہمارا یہی سوال تھا کہ اگر آپ آئینی ترامیم کرنا چاہتے ہیں تو تمام جماعتوں سے مشاورت کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ سے سارے اختیارات لیے جا رہے ہیں۔ متوازی عدالتیں کیسے چلیں گی۔ آئینی ترامیم کے معاملے پر سب جماعتوں کو آن بورڈ لیا جاتا ہے، اگر قانون کا ڈرافٹ نہیں ہے تو اتفاق رائے کس چیز پر پیدا کرنا ہے۔
دوسی جانب پارلیمنٹ ہاوس کے باہرمیڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کا رویہ بہت مثبت تھا، کچھ دیر اور انتظارکرنے پر مولانا فضل الرحمان اورحکومت نے اتفاق رائے سے طے کیا، ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہے گا، اسمبلی اجلاس غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی ہو جائے گا۔
عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم ہو جائے گی اس میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی، وقت کا تعین نہیں ہے ہفتہ 10 دن بھی لگ سکتے ہیں، آئینی مسودہ کبھی پبلک نہیں ہوتا، قانون مطلوبہ اکثریت مانگتا ہے اگر اکثریت حاصل نہیں ہے تو کوئی قیامت نہیں آتی۔