حکومت اور اپوزیشن کے درمیان عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم پر ڈیڈلاک برقرار ہے تاہم جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے رات گئے سیاسی رہنماؤں کی ملاقات بھی بے نتیجہ رہی۔ مولانا فضل الرحمان نے ججز کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق مجوزہ آئینی ترمیم بل پرحکومت کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ اب حکومت نے وفاقی کابینہ کا اجلاس مؤخر کردیا جس کے بعد امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم آج بھی قومی اسمبلی میں پیش نہیں کی جاسکے گی۔
ذرائع نے انکشاف کیا کہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے حمایت نہ ملنے پر کابینہ اجلاس ملتوی کیا گیا جس میں آئینی ترمیم کی منظوری دی جانی تھی تاہم اب قومی اسمبلی میں آج معمول کی کارروائی جاری ہے ، جس میں 3 نکاتی ایجنڈے پر غور کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ آئینی ترمیم کے لیے حکومت کے گیم نمبر پورے ہونے سے متعلق ساری باتیں محض کھوکھلے دعوے ثابت ہوئے۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی ملتوی کردیا گیا۔ بعدازاں وزیر دفاع خواجہ آصف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ لگتا ہے نمبر پورے نہیں تھے اس لیے اجلاس ملتوی ہوا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت جاری ہے، علاوہ ازیں سینیٹ کا اجلاس غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردیا گیا۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم پر ڈیڈلاک برقرار رہنے سے متعلق نئی پیش رفت ایسے وقت پر سامنے آئی ہے سیاسی حلقوں اور میڈیا پر خبریں زیر گردش تھیں کہ ن لیگ نے مولانا فضل الرحمان کو آئینی ترمیم کے لیے آمادہ کرلیا اور ان کے تمام تحفظات دور کردیے گئے لیکن رات دیر گئے بیٹھک نے ان تمام خبروں کی تردید کردی۔
حکومتی ترجمان عطااللہ تارڑ نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ یہ لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال ہے، یہ کوئی آن آف کا بٹن تو ہے نہیں کہ ادھر ترمیم آن کردی، ادھر ترمیم آف کردی۔
خیال رہے کہ حکومت کو اس آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومتی اتحاد کے پاس اس وقت بظاہر آئینی ترمیم کے لیے اکثریت نہیں ہے۔
فضل الرحمان کی رہائش گاہ اہم سیاسی شخصیات کی آما جگاہ
آئینی ترمیم کی منظوری اور عدم منظوری کے حوالے سے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کردار انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے اور اسی سلسلے میں گزشتہ روز رات گئے بلاول بھٹو اور محسن نقوی نے فضل الرحمن سے طویل ملاقات میں آئینی ترمیم پرمشاورت کی تھی۔
رات گئے شاہد خاقان عباسی، انوار الحق کاکڑ، سرفراز بگٹی اور مفتاح اسماعیل مولانا فضل الرحمان کے گھر پہنچے اور سربراہ جے یو آئی سے ملاقات کی، ملاقات میں عبدالغفور حیدری اور سینیٹر کامران مرتضیٰ بھی موجود تھے جبکہ رات گئے مولانا کی رہائش گاہ پر ہونے والی بات چیت سامنے نہ آسکی۔
ایک موقع پر صحافیوں نے مولانا فضل الرحمان سے سوال کیا کہ آئینی ترمیم کا مسودہ اب تک آپ کو نہیں دیا گیا، کیا حکومت کو آپ پر اعتماد نہیں؟ جس پر سربراہ جے یو آئی نے جواب دیا کہ یہ سوال آپ حکومت سے پوچھیں۔
گزشتہ دن بھر کے رابطوں کا ڈراپ سین یہ ہوا کہ عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم پارلیمان میں اتوار کو پیش نہ ہوسکی، قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس رسمی کارروائی کے بعد آج ساڑھے بارہ بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
دوسری طرف خصوصی کمیٹی کا اجلاس بھی بے نتیجہ رہا، خورشید شاہ کی زیر صدارت اجلاس میں حکومت اپوزیشن کو قائل کرنے میں ناکام رہی۔
مولانا فضل الرحمان نے ترمیمی بل آج تک مؤخر کرنے کا مشورہ دیا اور کہا اتنی اہم قانون سازی چند گھنٹے میں ممکن نہیں اور ڈرافٹ پر مزید مشاورت ناگزیر ہے جبکہ صحافی کے سوال پر مولانا نے کہا کہ دیکھتے جائیں، قوم کے لیے خوشخبری ہوگی۔
خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں مجوزہ ترمیم کے اہم نکات پیش کیے گئے تاہم مسودہ نہیں دیا گیا۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ججز کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر گزشتہ روز آئینی ترمیمی بل منظور کرانے کی کوشش کل ناکام رہی تاہم حکومت اور جمعیت علمائے اسلام کے مابین مذاکرات کامیاب ہونے کی اطلاعات تھیں۔
واضح رہے کہ حکومت نے مجوزہ آئینی ترمیم کے لیے مولانا فضل الرحمان کی حمایت حاصل کرلی ہے اور جمیعت علماء اسلام (جے یو آئی) کے تحفظات دور کردیے ہیں، جس کے بعد نواز شریف اور وزیراعظم کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات منسوخ ہوگئی۔ گزشتہ روز اجلاس ملتوی ہونے کے بعد وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ لگتا تو ایسا ہی ہے کہ نمبر پورے نہیں تھے۔