ججز کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر حکومت کی عدالتی اصلاحات کیلئے پارلیمان سے منظوری کی تیاریاں ایک دن کے لیے ملتوی ہوگئی ہیں۔ حکومت نے آئینی ترمیم کے لیے دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ لیکن یہ دعویٰ کس حد تک درست ہے اور موجودہ صورتحال میں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کون کسے ووٹ ڈے گا؟
قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کو اپنے 111 اراکین کے ساتھ 214 کا اتحاد حاصل ہے، مولانا فضل الرحمان دونوں ایوانوں میں ترپ کا پتا ثابت ہورہے ہیں جو فی الحال حکومت کا ساتھ نہ دینے کے اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
آئینی ترمیم کیلئے قومی اسمبلی میں 224 جبکہ ایوان بالا میں 64 اراکین کی تعداد درکار ہے۔
آج نیوز نے نمبر گیمز کی تفصیلات حاصل کرلی ہیں، پی ٹی آئی کے گرفتار ارکان بھی پارلیمنٹ میں ہی موجود ہیں، اسپیکر نے ارکان کی درخواست پر پارلیمنٹ لاج کو ہی سب جیل قراردیا تھا۔
قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے 69، ایم کیوایم کے 22، مسلم لیگ (ق) کے پانچ اور استحکام پاکستان پارٹی کے پاس چار اراکین ہیں، اسی طرح بلوچستان عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ضیا کے پاس ایک ایک نشست ہے، جے یو آئی ف کے پاس آٹھ نشستیں ہیں۔
’عدالتی اصلاحات کا بل خطرناک ثابت ہوگا‘، حافظ نعیم نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لے لیا
ذرائع کے مطابق، حکومت نے مولانا فضل الرحمان کی مشروط حمایت کا بڑا دعویٰ بھی کیا ہے، جے یوآئی حمایت کر دے تو تعداد 222 تک پہنچ جائے گی۔
حکومتی ذرائع کے مطابق، اپوزیشن کے چار سے زائد اراکین نے آئینی ترمیم کیلئے حمایت کی یقین دہائی کروا دی ہے، سینٹرل پنجاب سے تعلق رکھنے والے دو اراکین حکومت کو ووٹ دے سکتے ہیں، سابقہ فاٹا اور جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک ایک رکن بھی آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیں گے۔
قانون پارلیمنٹ بناتی ہے، نمبرز پورے ہوں گے تو ترمیم پاس ہوگی، چیئرمین سینیٹ
ایوان بالا (سینیٹ) میں پیپلز پارٹی کے 24، ن لیگ کے 19 اور بلوچستان عوامی پارٹی کے چار سینیٹرز ہیں، جبکہ ایم کیوایم اور اے این پی کے پاس تین تین نشستیں ہیں، نیشنل پارٹی کے پاس ایک سیٹ ہے اورجے یو آئی ف اور آزاد اراکین کی تعداد پانچ پانچ ہے۔ جے یو آئی ف کی حمایت پرحکومت کو ایوان بالا میں دو تہائی اکثریت حاصل ہوگی۔