کالم نگار جاوید چوہدری کے موجود سیاسی صورتحال پربڑے انکشافات سامنے آگئے، جاوید چوہدری نے کہا کہ جتنے بھی یو ٹیوبرز کے پاس تفصیلات جا رہی تھیں وہ جنرل فیض حمید کے موبائل سے جا رہی تھیں ،گنڈا پور اور فیض حمید عمران خان سے جیل میں ملے ہیں. لیکن اس کی تصدیق نہیں ہوئی۔
کالم نگار جاوید چوہدری کی آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں گفتگو کہا کہ جتنے بھی یو ٹیوبرز کے پاس تفصیلات جا رہی تھیں وہ جنرل فیض حمید کے موبائل سے جا رہی تھیں ، ایک اور بات بھی زیر گردش ہے کہ گنڈا پور اور فیض حمید عمران خان سے جیل میں ملے ہیں اور یہ خفیہ ملاقات تھی۔ یہ ڈرائنگ روم کی گپ شپ ہے لیکن اس کی تصدیق نہیں ہوئی ہے ۔ اور اداروں کو اس کا اس وقت نہیں پتہ لگا کیونکہ وہ اپکی پوری تیاری کے ساتھ گئے تھے ان کی اپنی اسٹیبلشمنٹ تھی اور ہر شعبے میں ہر جگہ کام کرنے کی پوزیشن میں تھی۔
انکا مزید کہنا تھا کہ جب سب کو معلوم ہو گیا تو اس میں ملوث افراد کو گرفتار کر لیا گیا اور جو لوگ اس میں ملوث ہیں وہ آپ کے علم میں ہیں۔ فیض کی گرفتاری اس لیے گنڈا پور پریشان ہیں اور فیض حمید سے ان کا رابطہ تھا۔ اس کے لیے رابطہ مشکل ہے۔
کورٹ مارشل کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ کورٹ مارشل کی کارروائی جاری ہے لیکن کسی نے کوئی تصدیق نہیں کی ۔ البتہ آف دی ریکارڈ تفتیش جاری ہے اور حقائق بھی سامنے رکھے گئے ہیں۔ آپشن یہ ہے کہ آپ معافی مانگیں اور کم سے کم سزا ملے گی۔ لیکن اگر آپ مقابلہ کرنا چاہیں گے کیس لڑنا چاہیئں گے تو پھر کورٹ مارشل ہوتا ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ فیض حمید کورٹ مارشل میں جانا چاہتے ہیں اس کے پاس وکیل، اپیل ان چیف، ہائی کورٹ، سپریم کورٹ، صدر کے ہونے کا فائدہ ہے، اس لیے ان کے پاس وقت ہے اور امید بھی کہ حکومت بدلے گی اور تبدیلی آئے گی تو میری سزا معاف ہوجائے گی۔
علی امین کے لاپتہ ہونے سے متعلق بھی کالم نگار نے کھل کر بات کی کہا کہ علی امین 8 بریفنگ دی کہ مجھے اسلام آباد بلایا گیا تھا، موبائل فونز اس لئے بند تھے کیونکہ جیمرز لگے ہوئے تھے اب اس جیز کا دل نہیں مانتا ، خواجہ آصف کہتے ہیں کہ ان کے پاس ایسا فون ہے جو جیم نہیں ہوتا۔ اگر بریفنگ ہوتی تو ایک لیول پر آدمی نہیں جا سکتا۔ سادہ سی بات تھی کہ ان کی تقریر پر ناراضگی تھی۔ اگر آپ بہادر ہیں اور مسترد کرتے ہیں۔ میرے خیال میں گنڈا پور کا ردعمل غیر معمولی تھا۔ اس کے بعد وہ کے پی ہاؤس گئے جہاں 24 گھنٹے وہ کسی سے نہیں ملے اور اس کے بعد گنڈا پور نے سواتی کے ساتھ پریس کانفرنس میں شرکت کی بار کونسل میں ان کی گفتگو واضح نہیں تھی۔
انھوں نے کہا کہ ملٹری قانون سازی کے تحت کوئی نہیں ملٹری ٹرائل سے بچے گا، ملٹری ٹرائل میں مزید چیزیں شامل کی جا رہی ہیں نئے قانون سازی عمران خان کا ٹرائل ہو گا ۔ قانون سازی میں دیر ہونے کی وجہ بہت سے وجوہات ہیں ایک یہ ہو سکتی ہے کہ قاضی فائز عیسی اس قانون سازی کی حمایت کریں گے بھی یا نہیں ،جب تک حکومت کو نہیں لگتا کہ فائز عیسی اس کے حامی نہیں تب تک قانون سازی نہیں ہوسکتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ فائز عیسی اگر مدت ملازمت میں توسیع نہیں لیتے تو جسٹس منصور علی شاہ کو اس قانون کا فائدہ ہو گیا تو کی مدت ملازمت 6 سال ہو جائے گی ۔ قانون اجازت دے تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے جاوید چوہدری کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت ہے لیکن ان کے ساتھ مولانا فضل نہیں نہیں مولانا صاحب راضی ہو گئے تھے اب وہ ایک بار پھر دوسری جگہ جا رہے ہیں ، مولانا صاحب چاہتے ہیں ان کو کے پی کی گورنر شپ دی جائے ۔ حکومت کے پاس سینیٹ میں 3 سیٹیں کم ہیں اگر انھیں وہاں سے 3 ووٹ مل گئے تو حکومت کامیاب ہو جائے گی اور حکومت اسے کے لئے ہاتھ پاؤں بھی مار رہی ہے ۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ فائدہ میں مولانا صاحب ہیں کیونکہ ان کے بغیر نہ اپوزیشن چل سکتہ ہے نہ ہی حکومت ۔ اور سب سے کم سیٹیں بھی انھیں کے پاس ہیں ۔
انھوں نے بتایا کہ حکومت کے پی میں گورنر راج اور ایمرجنسی لگانا چاہتی ہے اور اسی وجہ سے تمام ایم این ایز اور سینیٹرز کو اسلام آباد میں روک دیا گیا ہے اور مولانا صاحب کہتے ہیں کہ آپ لگا دیں ، لیکن اگر گورنر راج لگانا چاہتے ہیں تو گورنر ہمارا ہونا چاہیئے وہ نہیں چاہتے کہ فیصل کریم کنڈی کو یہ سہولت ملے ۔ جوائنٹ سیشن میں آئینی ترمیم ہو سکتی ہے اگر آئین میں ترمیم ہوئی تو اس کی ذد میں سب آئیں گے، یہ ترمیم کسی بھی وقت ہو سکتی ہے ان کی پوری تیاری ہے۔