سینیٹ اجلاس میں آج پھر گرما گرمی ہوئی، وزراء کی عدم موجودگی پر سینیٹرز نے شدید احتجاج کیا جبکہ حکومتی ارکان نے سینیٹر فلک ناز چترالی کو ایوان سے نہ نکالے جانے پر سینیٹ کی کارروائی سے واک آؤٹ کردیا۔
سینیٹ کا اجلاس ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان کی زیر صدارت شروع ہوا، وقفہ سوالات کے بعد اجلاس میں سینیٹر فلک ناز چترالی کی شرکت پر خاتون رکن ثمینہ ممتاز زہری نے نشاندہی کی جس پر فیصل واواڈا اور حکومتی اراکین نے معطلی کے باوجود فلک ناز چترالی کی اجلاس میں شرکت پر شدید احتجاج کیا گیا۔
فیصل واوڈا نے سینیٹر فلک ناز چترالی کو ایوان سے باہر نکالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹر فلک ناز کو 2 ورکنگ دن کے لیے معطل کیا گیا تھا، آج سینیٹر فلک ناز کیسے ایوان میں موجود ہیں، اگر فلک ناز نے معافی نہ مانگی تو ہم ایوان کا بائیکاٹ کریں گے۔
ڈپٹی چئیر مین سینیٹ نے کہا کہ 2 دن اجلاس بڑے اچھے طریقے سے چلا ہے، آپ ایوان کو چلنے دیں، جس پر حکومتی سینیٹرز نے سینیٹر فلک ناز چترالی کو ایوان سے نہ نکالے جانے پر واک آؤٹ کر دیا۔
یاد رہے کہ 11 ستمبر کو آزاد سینیٹر فیصل واڈا سے شدید تکرار، نامناسب زبان پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سینیٹر فلک ناز کی رکنیت 2 دن کے لیے معطل کر دی گئی تھی۔
قبل ازیں وفاقی وزراء کی اجلاس میں عدم موجودگی پر سینیٹرز نے ایوان میں احتجاج کیا، سینیٹر سعدیہ عباسی کا کہنا تھا کہ ایوان میں کوئی وزیر نہیں، ایوان کی کارروائی ملتوی کریں، جب تک وزیر نہ آئیں ہم ہوا سے بات کریں گے، سینیٹر محسن عزیز کا کہنا تھا کہ یہ روز کا مذاق بن گیا ہے۔
اس پر سیدال خان نے کہا کہ وزراء کو کہیں کہ ایوان میں تشریف لائیں، وہ کیوں نہیں آئے؟ فوراً ایوان میں پیش ہوں۔
سینیٹر دنیش کمار نے دریافت کیا کہ ہم اجلاس میں کیا دیواروں سے بات کریں؟ وزیر توانائی بیمار ہیں ان کی بات سمجھ آتی ہے لیکن باقی وزراء کہاں ہیں؟ وزرا کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے رولنگ دیں۔
بعد ازاں سینیٹ میں قائد حزب اختلاف شبلی فراز نے کہا کہ وزرا کا نہ آنا وطیرہ بن گیا ہے، اس سے حکومت کی ایوان کو دی جانے والی اہمیت واضح ہے، 9 ستمبر کے واقعہ پر وزیراعظم کا کوئی بیان نہیں آیا، انہوں نے اپنے ساتھیوں سے اظہار یکجہتی نہیں کی، ہر وہ وزیر جس نے جواب دینا ہے اسے ایوان میں موجود ہونا چاہیئے۔
اس موقع پر وفاقی وزیر مصدق ملک ایوان میں حاضر ہوگئے۔ سینیٹ اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران مصدق ملک نے کہا کہ گرجا روڈ پر گیس کی پائپ لائن 6.1 کروڑ کی لاگت سے مکمل کر لی گئی ہے، مختلف علاقوں میں یا گلیوں میں ضرورت کے مطابق پائپ لائن کے سائز کو ڈیزائن کیا جاتا ہے، اس عمل کا مقصد گیس کے دباؤ برقرار رکھنا ہوتا ہے، یہ درست ہے کہ گرجا روڈ پر مختلف گلیوں میں پائپ لائنوں کا سائز مختلف ہے، محکمہ مختلف علاقوں میں اسٹیل کے بجائے پلاسٹک کی پائپ لائن بچھا رہی ہے، اس کا مقصد پائپ لائنوں کو زنگ سے بچانا ہے، گرجا روڈ راولپنڈی کا یہ منصوبہ پانچ مختلف کنٹریکٹر کو ملا تھا۔
اس پر سینیٹر زرقا سہروردی نے کہا کہ میں نے ان سے فرٹیلائزرز پلانٹس سے متعلق پوچھا کہ کتنے پلانٹس کو سبسڈی دی گئی؟ سبسڈی ملنے والے پلانٹس کے ناموں کی تفصیل تو فراہم کی ہی نہیں گئی۔
وفاقی وزیر مصدق نے بتایا کہ سب فرٹیلائزرز پلانٹس منافع میں ہیں، ہم فرٹیلائزرز پلانٹس کے لیے پالیسی بنا رہے ہیں، فاطمہ، ایگری ٹیک فرٹیلائزرز پلانٹس کو سبسڈی دے رہے ہیں، تین کمپنیوں کو 43 ارب روپے کی سبسڈی دے رہے ہیں۔
وقفہ سوالات کے دوران ضمنی سوالات کرنے کے معاملے پر سینیٹر زرقہ سہروردی اور سینیٹر دنیش کمار میں تلخ کلامی ہوگئی۔
سینیٹر دنیش کمار کی ضمنی سوال کی باری پر سینیٹر زرقہ نے ضمنی سوال کردیا، زرقہ سہروردی کو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے سوال کرنے کا موقع دے دیا، زرقہ سہروردی سوال کا موقع ملنے پر شعر سنانے لگ گئیں۔
اس پر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ آپ کو ضمنی سوال کا موقع دیا آپ شعر و شاعری کرنے لگیں، بعدازاں ڈپٹی چئیرمین نے دنیش کمار کو سوال کا موقع دے دیا۔
دنیش کمار کو ضمنی سوال کا موقع دینے پر زرقہ سہردوری نے احتجاج کردیا۔
سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ سوال کرنے کی میری باری تھی، میں نے انہیں موقع دیا، میں اب سوال کروں گا، اس بات پر زرقہ سہردوری اور دنیش کمار کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔
بعد ازاں سینیٹر دنیش کمار نے سینیٹ میں کورم کی نشاندہی کردی جس پر سینیٹ اجلاس کل سہ پہر 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
اس پر شبلی فراز نے کہا کہ یہ آج منصوبہ بنا کر آئے تھے کہ ایوان نہیں چلنے دینا، ایوان کو راجوڑہ بنانا چاہتے ہیں۔