ججز کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر حکومت کی عدالتی اصلاحات پارلیمان میں اتوار کو پیش کی جائیں گے، حکومت نے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی عمر نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے، حکومت آئینی عدالت قائم کرنے کے لیے ترمیم لا رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے اس حوالے سے اتحادیوں اور اپنے اراکین پارلیمنٹ کو آگاہ کردیا ہے اور ارکان کو کل پارلیمنٹ میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی نے ممکنہ قانون سازی پر اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے کسی جج کو ایکسٹینشن نہ دینے کا مولانا فضل الرحمان کا مطالبہ مان لیا ہے اور چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی عمر نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت آئینی عدالت قائم کرنے کیلئے ترمیم لا رہی ہے، آئینی عدالت کا چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ججز میں سے لگایا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق بیرون ملک سے کچھ لوگوں کی وطن واپسی پر آئینی ترمیم پیش کردی جائے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے دوسری ترمیم چیف جسٹس پاکستان کی تقرری کے طریقہ کار سے متعلق ہوگی، نئے چیف جسٹس پاکستان کی تقرری کیلئے پانچ سینیئر ججز کا پینل بھیجا جائے گا، حکومت فیصلہ کرے گی کہ ان پانچ سینیئر ججز میں سے کس کو چیف جسٹس بنانا ہے۔
تیسری ترمیم ہائیکورٹ کے ججز کی تقرری سے متعلق ہوگی، ہائیکورٹ کے کسی بھی جج کا ملک میں کہیں بھی تقرر کیا جاسکے گا، ہائیکورٹ کے جج کی تقرری کیلئے متعلقہ جج سے مشاورت کی شق ختم کی جارہی ہے۔
امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ ہفتہ کو قومی اسمبلی عدالتی اصلاحات کیلئے آئینی ترمیم پیش کی جائے گی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اطلاعات موصول ہوئیں کہ حکومت کی جانب سے پارلیمان میں آئینی ترمیم اتوار کو پیش کئے جانے کا امکان ہے۔
اعلیٰ عدلیہ سے متعلق متوقع آئینی ترمیم: حکومت نے اتحادیوں کو اعتماد میں نہیں لیا، اعجاز الحق
وزیراعظم شہبازشریف کی ن لیگ اوراتحادی اراکین کو پیرتک اسلام آباد میں رہنے کی ہدایت کے بعد ان قیاس آرائیوں نے مزید زور پکڑا کہ ہفتہ کو آئینی ترمیم بل پیش نہیں کیا جا سکے گا۔
خیال رہے کہ آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر اڑسٹھ اور ہائیکورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر پینسٹھ سال کی جائے گی۔ چیف جسٹس کی مدت میں تین سال توسیع ہوگی۔
اس ضمن میں گزشتہ روز حکومتی حلقوں نے کہا تھا کہ آئینی ترمیم کے لیے درکار نمبر گیم پورے ہیں اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ چار اراکین آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیں گے۔
ذرائع کے مطابق سینٹرل پنجاب سےتعلق رکھنے والے دو اراکین بھی ووٹ دے سکتے ہیں، دونوں کا تعلق سنی اتحاد کونسل سے ہے، سابقہ فاٹا اورجنوبی پنجاب کےایک ایک رکن بھی ووٹ دیں گے۔
ذرائع کے مطابق دونوں اس وقت ُ آزاد اراکین ہیں لیکن اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے ہیں۔ خیال رہے کہ حکومت نے کل اہم آئینی ترمیم لانے کے لیے سینٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس طلب کیے ہیں۔ حکومت نے آئینی ترمیم کے لئے دونوں ایوانوں میں نمبر گیم پورے ہونے کا دعویٰ پہلے ہی سامنے آچکا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اراکین پارلیمنٹ کے اعزاز میں وزیراعظم ہاؤس میں عشائیہ دیا جس میں اتحادی پارٹیوں کے اراکین شریک ہوئے۔
ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے تمام اتحادیوں کے تعاون پر شرکا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہر اہم موقع پر اتحادیوں کا تعاون رہا جس پر شکر گزار ہوں۔
کوئی شخص پارٹی ڈسپلن کے خلاف ووٹ ڈالے گا تو نا اہل کیا جائے گا، وفاقی وزیر قانون
ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے شرکاء کو موجودہ ملکی سیاسی صورتحال پر اعتماد میں لیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو غیریقینی اور معاشی مشکلات سے نکالنا اولین ترجیح ہے۔
وزیر اعظم کی جانب سے تمام اراکین کو اسلام آباد میں رہنے اور اراکین پارلیمنٹ کو کل کے اجلاس میں شرکت یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
وزیراعظم نے شرکاء سے خطاب میں کہا کہ ملک اب مزید عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا، عدم استحکام پیدا کرنے والی قوتوں کا بائیکاٹ کرنا ہو گا۔
اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں نے وزیراعظم شہباز شریف پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔
شرکاء کو قانون سازی کے حوالے سے ڈپٹی وزیراعظم سحاق ڈار نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پہلے وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوگا، کابینہ کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں قانون سازی کی جائے گی۔
وزیراعظم نے آئی ایم ایف کے حوالے سے بھی شرکاء کو آگاہ کیا۔
دوسری جانب قومی اسمبلی اجلاس کے بعد اپوزیشن نے پارلیمنٹ ہاؤس میں ہنگامی پارلیمانی پارٹی اجلاس طلب کیا، جس میں بیر سٹرگوہر، اپوزیشن لیڈر عمرایوب خان، شیر افضل مروت، زرتاج گل، عامر ڈوگر، اسد قیصر اور زین قریشی شریک ہوئے۔
اعلیٰ عدلیہ میں ترامیم پر یہ سمجھتے ہیں ہم چپ کرکے بیٹھ جائیں گے تو ان کی بھول ہے، عمران خان
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی نے ممکنہ قانون سازی پر اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے، پی ٹی آئی قیادت نے ممبران اسمبلی کو آئینی ترمیم پر پارٹی پوزیشن سے آگاہ کیا۔
خیال رہے کہ حکومت اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے اہم آئینی ترمیم لانا چاہتی تھی ، جس کیلئے ایوان زیریں میں اسے دوتہائی اکثریت یعنی ایوان کے کل ممبران 336 میں سے 224 ممبرز کی حمایت ضروری تھی۔
سندھ کابینہ میں تبدیلی کے اشارے، وزیر اعلی سندھ کے اختیارات محدود کر دیئے گئے
قومی اسمبلی کے ایوان میں اس وقت 312 ممبران موجود ہیں جبکہ خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں سمیت 24 نشستیں یا تو متنازع ہیں یا ابھی خالی ہیں جن پر نوٹیفیکیشن ہونا ہے۔
نواز شریف کا سیاسی محاذ پر متحرک ہونے کا فیصلہ، ملک گیر دورے کریں گے
حکومتی اراکین کی تعداد 213 بنتی ہے جس میں مسلم لیگ (ن) کے اراکین کی تعداد 111 ہے، پیپلز پارٹی کے اراکین کی تعداد 68، ایم کیو ایم کے 22 اراکین، ق لیگ کے پانچ، استحکام پاکستان پارٹی کے چار، مسلم لیگ ضیا، نیشنل پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن شامل ہے۔
اسی طرح اپوزیشن اراکین کی تعداد 101 ہے جس میں سنی اتحاد کونسل کے 80، آزاد اراکین چھ، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آٹھ اراکین، بی این پی، مجلس وحدت المسلمین اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن شامل ہیں۔
رحیم یار خان میں جاری ضمنی انتخاب پیپلز پارٹی جیت چکی ہے، اگر جے یو آئی ف ملا لیا جائے تو حکومتی نمبر 222 تک پہنچ گیا ہے اور اب اسے صرف دو آزاد اراکین توڑنے ہوں گے۔