طلاق کی صورت میں اخراجات کی ادائیگی کے حوالے سے ایک بیان سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہو رہا ہے۔ مراکش کے وزیر انصاف عبداللطیف وہبہ کا یہ بیان تنازعہ کا باعث بن گیا ہے۔
عبداللطیف وہبہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بیان دیا کہ ’طلاق کی صورت میں شوہر کے طلاق کے اخراجات بیوی کو ادا کرنا ہوں گے‘۔
ان کے اس بیان نے سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
مراکشی وزیر انصاف کے اس بیان پر سوشل میڈیا صارفین، عورتوں کے حقوق کیلئے سرگرم کارکن اور مراکشی سیاسی اور پارلیمانی رہنماؤں کی طرف سے سخت اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔
تنازعہ کی چنگاری اس وقت شروع ہوئی جب مراکش کے وزیر انصاف نے ”چینل 2“ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایک اچھی عورت کو طلاق کی صورت میں اپنے شوہر کے اخراجات برداشت کرنا ہوں گے کیونکہ مالی ذمہ داری ان کے درمیان مشترک ہے۔
ایشوریا اور ابھیشیک کی طلاق سے متعلق سوالات پر امتیابھ بچن کا ردعمل
انہوں نے مزید کہا کہ عورت کے مالی حالات اور مرد کے حالات کا مطالعہ کیا جائے گا تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ ان دونوں کے درمیان کس کو نقصان پہنچا ہے، تاکہ دوسرے کو معاوضہ فراہم کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد ’خواتین پر نفقہ مسلط کرنا ہے تاکہ توازن اور انصاف قائم کیا جا سکے‘۔
ان بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے کاسا بلانکا اتھارٹی کی وکیل اور ایوان نمائندگان میں مستقل پارلیمانی کمیٹی برائے انصاف اور قانون سازی کی رکن لبنیٰ صغیری نے عرب خبر رساں ادارے سےبات کرتے ہوئے کہا کہ ’مراکش کی خواتین ہمیشہ اپنے خاندان کا سہارا بنتی ہیں۔ اپنے خاندان اور شادی کی ذمہ داریاں انجام دیتی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کا تجربہ بہت سی مراکشی خواتین نے کیا ہے‘۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ’یہ بحث پرانی بھی ہے اور نئی بھی۔ اس حوالے سے 2004ء کے عائلی ضابطہ کی دفعات کو فعال کیا گیا ہے‘۔
لبنیٰ صغیری نے کہا کہ ’’معاملے کا تعلق اخراجات سے نہیں ہے، کیونکہ یہ شوہر اور باپ کی طرف سے بیوی اور بچوں کیلئے ہے، شوہراخراجات کا ذمہ دار ہے۔ اگر طلاق دے دے تو بیوی اس کی ذمہ دار نہیں ہے۔ بچوں کی کفالت کی ذمہ داری شوہر پرعائد ہوتی ہے‘۔
وکیل کی ایک غلطی نے میاں بیوی کی طلاق کروادی
انہوں نے کہا کہ ’یہاں سوال یہ ہے کہ کیا طلاق کے بعد بیوی اپنے بچوں کی کفالت برداشت کرے گی؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ یہ کوئی نئی حقیقت نہیں ہے، کیونکہ عائلی ضابطہ 2004 کے آرٹیکل 199 کے تقاضے یہ بتاتے ہیں کہ اگر شوہر مکمل یا جزوی طور پر اپنے بچوں کی کفالت کرنے سے قاصر ہے اور ماں کی مالی حالت بہتر ہے تو وہ اس حد تک بچوں پر خرچ کرنے کی ذمہ دار ہے جہاں تک شوہر ایسا کرنے سے قاصر ہے، لیکن یہ عنصر فعال نہیں ہے کیونکہ شاید طلاق کی صورت میں مالدار عورت اپنے شوہر سے کفالت کا مطالبہ نہیں کرے گی۔ دوسرا یہ کہ عورت اپنے بچوں کی ذمہ داری پہلے سے ہی اٹھاتی ہے خاص طور پر اگر وہ شوہر کی مشقت کو ثابت کرنے سے عاجز ہو’۔
بیوی اور شوہر کے اشتراک کے حوالے سے سوشل میڈیا پر اٹھنے والی بحث کے بارے میں الصغیری نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر ہم واقعی ایک ترقی پسند، جدید معاشرے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اگر خواتین اپنے حقوق مانگ رہی ہیں تو وہ اظہار خیال کیوں نہیں کرتیں؟‘
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ’سادہ عورت دراصل اپنی مالی ذمہ داری بغیر کسی خرچ کے ادا کرتی ہے‘۔