عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ اسپیکر کو پارلیمنٹ سے گرفتاریوں کا معاملہ پریویلییجز (استحقاق) کمیٹی کو بھیجنا چاہئیے تھا، کیونکہ پارلیمان کا استحقاق مجروح ہوا ہے۔
شاہد خاقان عباسی نے آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر نے جو کمیٹی بنائی ہے وہ بھی ٹھیک ہے، لیکن معاملہ استحقاق کمیٹی کو بھیجنا چاہئیے تھا اور ان کو فوری طور پر آئی جی سمیت تمام متعلقہ افراد کو طلب کرنا چاہئیے تھا، یہ اسپیشل کمیٹی کا کام نہیں ہے، قومی اسمبلی کے بڑے واضح رولز ہیں جنہیں جان بوجھ کر توڑا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ اب کمیٹیوں میں جائے گا، پانچ چھ مہینے وہاں چلتا رہے گا اور پھر ڈفیوز (ختم) ہوجائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر گرفتار کرنا ہی تھا تو گیٹ پر کرلیتے ، 1990 کی بات ہے جب معراج خالد اسپیکر تھے، مجھے اور اعجاز الحق کو ایک ایس پی نے اسمبلی کے گیٹ پر اندر داخل ہونے سے صرف 15 منٹ روکا تھا، اِس پر اُس کا کرئیر ختم ہوگیا تھا۔
اسپیکر کے چارٹر آف پارلیمنٹ بنانے کی بات پر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ چارٹر آف پارلیمنٹ کیا ہوتا ہے، ہر چیز چارٹر بناتے رہتے ہیں، قانون موجود ہے آئین موجود ہے ، قوسمی اسمبلی کے رولز ہیں اس کو نافذ کریں ، اگر ٹھیک نہیں ہے تو اس میں ترمیم کرلیں۔
شاہد خاقان عباسی نے متوقع قانون سازی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ ایک آدمی کی پینشن سے کیا ملک ڈوب جائے گا؟ آج قاضی فائز عیسیٰ کا امتحان ہے، وہ اپنی عزت بچا لیں یا ایکسٹینشن لے لیں، ’یہ اپنی عزت بچا لیں یا تین سال لے لیں‘، انہیں تین سال مزید نوکری مل جاتی ہے تو پھر عزت نہیں رہے گی۔
سپریم کورٹ اعلامیے میں چیف جسٹس کیلئے ’فکس مدت‘ کے حکومتی ارادوں کی تصدیق
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ججز کی مدت ملازت آج کیوں بڑھ رہی ہے اس پر اسمبلی میں بحث ہو نا، آئین کی ترامیم ایک دن میں ہوتی ہیں اس پر بحث نہیں ہوتی؟ اس پر تو چھ مہینے بحث ہونی چاہئیے اس کے محرکات دیکھنے چاہئیں۔