متھیرا ایک خوبصورت، مشہوراورذہین پاکستانی ٹیلی ویژن اداکارہ ، ماڈل ، ڈانسراورمیزبان ہیں۔ ان کی ایک بہت بڑی فین فالوئنگ ہے اور مداح ان سے محبت کرتے ہیں، کیونکہ وہ ایک دوٹوک اور رائے رکھنے والی شخصیت رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ، متھیرا ایک شو کی میزبانی بھی کررہی ہیں، جہاں وہ سوشل میڈیا کی مشہور شخصیات کا انٹرویو کرتی ہیں۔
متھیرا ایک بااختیار اور خود مختارخاتون ہے، جو تین بیٹوں کی ماں ہے اور اکیلی ان کی کفالت کی ذمہ داریاں اٹھارہی ہیں۔
زندگی کے چار سالوں میں کیا کچھ سیکھا؟ مایہ خان نے شیئر کردیا
متھیرا نے ایک مارننگ شو میں شرکت کی۔ اس موقع پر انہوں نے اپنی زندگی کے ایک اہم پہلو کا انکشاف کیا۔
شومیں انہوں نے اے ڈی ایچ ڈی میں مبتلا ہونے کے بارے میں کھل کر بات کی۔ اوراپنےعلاج کے بارے میں بھی بتایا۔ اور ( توجہ کی کمی اور بے چینی ) کے بارے میں تفصیلات شیئر کیں۔
متھیرا نے بتایا کہ انہیں ADHD کا علم بالغ ہونے کے بعد ہوا۔ انہوں نے کہا کہ، میں نے بالغ ہونے پر ADHD کے بارے میں سنا۔ جب میں علاج کے لیےڈاکٹرکے پاس گئی تو میرے ڈاکٹر نے مجھے ADHD کی تشخیص دی۔ اورمجھے دوا تجویز کی گئی، جسے میں نے کچھ وقت کے لیے استعمال کیا۔
متھیرا نے مزید کہا کہ، بعد میں جب مجھے احساس ہوا کہ میں ان دوائیوں کی عادی ہوتی جارہی ہوں تو میں نے ان دوائیوں کا استعمال ترک کر دیا، میں اسے خود سے ٹھیک کرنا چاہتی تھی لہذا میں نے اس پر قابو پانا سیکھا۔
متھیرا کا کہنا تھا کہ، ADHD کوئی ایبنارملٹی یا خطرناک بیماری نہیں ہے، اور اس سے متعلق مدد طلب کرنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔
متھیرا نے اپنی بیماری کی نوعیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہم ہمیشہ ایسی بیماریوں کے منفی پہلو دیکھتے ہیں، اور مثبت پہلو پس پشت ڈال دیتےہیں، جبکہ اس کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں، ہمارے جیسے افراد بہت جلدی بھول جاتے ہیں اس لیے کسی بھی صدمے سے نکلنے میں نسبتاً کم وقت لگتا ہے، اسی طرح ہمارے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ اگر ہم کوئی بھی کام کرنا چاہیں تو بہت تیزی سے کرسکتے ہیں کہ سامنے والا دیکھ کرحیران رہ جائے۔
انہوں نے والدین کو مشورہ دیا کہ وہ بچوں کی توانائی کو مثبت طریقے سے استعمال کریں، ان پرتعلیم یا دیگر معاملات میں غیر ضروری دباو نہ ڈالیں۔ کیونکہ بچوں کو زیادہ تر ذہنی اور علمی مسائل کا سامنا اس وقت ہوتا ہے، جب والدین نادانستہ طور پران پردباؤ ڈالتے ہیں۔ اور ان سے توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔
متھیرا نے والدین کو بھی یہ مشورہ دیا کہ والدین کو یہ سیکھنا چاہیے کہ بچوں کی توانائی کو کیسے مثبت طور پرلے جایا جائے، نہ کہ اسے منفی سمت میں جانے دیا جائے۔